اﷲ کا عاشق ہر وقت خوش رہتا ہے، بس مالک پر مرنا سیکھو؎
کوئی مرتا کوئی جیتا ہی رہا
عشق اپنا کام کرتا ہی رہا
اور میرا بہت پرانا شعر ہے ؎
میری زندگی کا حاصل میری زیست کا سہارا
تیرے عاشقوں میں جینا، تیرے عاشقوں میں مرنا
لیکن ابھی تو جینے کی دعا کرو، جب مرنا ہو تو اس وقت بھی اللہ عاشقوں کا میلہ لگادے گا، لیکن اس وقت تو عاشقوں میں جینا ہو؎
کسی اہل دل کی صحبت جو ملی کسی کو اخترؔ
اسے آگیا ہے جینا اسے آگیا ہے مرنا
یہ جینا کون سا ہے؟ جو زندگی خدا پر فدا ہوتی ہے، جو بندہ اپنے مولیٰ اور اپنے مالک کی مرضی پر جیتا ہے اصل زندگی وہی ہے، باقی سب جانور بصورتِ انسان ہیں۔
بلاغتِ کلامِ خدا کی ایک مثال
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ جتنے کافر ہیں، نافرمان ہیں وہ جانور ہیں، بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ2؎ بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ پہلے اللہ نے فرمایا اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ یہ جانور ہیں، پھر فرمایا بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ قرآن کے الفاظ کی ترتیب دیکھیے! اگر یہی جملہ پہلے نازل ہوجاتا کہ جانوروں سے بدتر ہیں تو مزہ نہیں آتا، جیسے کوئی کسی کو کہہ دے کہ تم اُلو کے دادا ہو تو اس جملہ میں مزہ نہیں ہے، پہلے اُلّو کا ابّا کہو پھر اُلّو کا دادا کہو، ترتیب سے کہو۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی بلاغت ہے، حاکمانہ اور شاہانہ کلام کی بلاغت ہے کہ پہلے یہ فرمایا کہ یہ مثل جانور کے ہیں پھر فرمایابَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ عربی گرائمر میںبَلۡ ترقی کے لیے
_____________________________________________
2؎ الاعراف:179