مقصدِ تخلیق حیات
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ
کثرتِ دعا کا معمول بنا لیں
اس دعا کو اپنا معمول بنالیں کہ اے خدا! اپنی یاد کے علاوہ ہمیں کسی چیز میں مشغول نہ فرمائیے۔ دیکھیے! جب اللہ تعالیٰ یہ دعا قبول فرمالیں گے تو ایسے اسباب بھی پیدا کردیں گے کہ اﷲ کی یاد کے لیے سب فکروں سے فراغت نصیب ہوجائے گی۔ لہٰذا اللہ سے مانگو، مانگنے سے کیا نہیں ملتا، جب اﷲ اپنے دشمنوں یعنی کافروں اور یہودیوں کو روٹی دے رہا ہے تو کیا مسلمانوں کو روٹی نہیں دے گا؟ آہ! جو پیٹ بنا سکتا ہے وہ روٹی بھی دے سکتا ہے ،جو سر بناسکتا ہے وہ ٹوپی بھی دے سکتا ہے۔ بتاؤ سر کی قیمت زیادہ ہے یا ٹوپی کی؟ جب بڑی چیز دے دی تو چھوٹی چیز کے لیے فکر کیوں کرتے ہو۔یہ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا مضمون ہے۔
اللہ تعالیٰ کی محبت مؤمن کی غیر مشترکہ نعمت ہے
ایک جگہ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اے اللہ! آپ اس سورج سے کافروں کو بھی روشنی دیتے ہیں، ہندو اور یہودی بھی اس سورج سے دھوپ لے رہے ہیں، آپ ہمیں وہ سورج دیجیے جو آپ کافروں کو نہیں دیتے، ہمارا مال اور دشمنوں کا مال ایک ہوگا تو پھر ہمارا کیا امتیاز ہے۔ لہٰذا آپ ہمیں اپنی محبت اور نور اور ذِکر کا سورج دیجیے جو کافروں کو نصیب نہیں ہے۔ دنیاوی سورج سے تو کافر اور مسلمان سب فائدہ اٹھا رہے ہیں، ہمیں وہ دولتِ مشترکہ نہیں چاہیے جو آپ دشمن کو بھی دیں اور دوست کو بھی دیں، یہ خالص ہمارا مال نہیں ہے، ہمارا مال وہ ہے جو آپ دشمنوں کو نہیں دیتے۔ اس پراختر کا یہ شعر ہے؎