ہمیں حیات مل رہی ہے، اﷲ نے اپنی محبت کو ہماری جان میں بو دیا ہے۔ آپ کھیتی کرو، ساری زندگی نیک عمل کرو، آپ بیج وہیں سے لے کر آئے ہو۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎
دل ازل سے تھا کوئی آج کا شیدائی ہے
تھی جو اک چوٹ پرانی وہ اُبھر آئی ہے
یعنی اللہ نے اپنی محبت کی چوٹ لگا کر ہمیں دنیا میں بھیجا ہے۔ پہلوان جب چوٹ کھاتا ہے، درخت سے گرتا ہے یا کُشتی میں مار کھاتا ہے تو اسے ہر وقت اس چوٹ کا احساس نہیں ہوتا لیکن جب پورب کی ہوا چلتی ہے جسے پُروا ہوا کہتے ہیں تب کہتا ہے کہ آج بہت درد ہورہا ہے، بچپن میں درخت سے گرے تھے یا دوسرے پہلوان نے جو گھونسا مارا تھا آج پورب کی ہوا نے اس درد کو اُبھار دیا ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا وی درد پورب کی ہوا سے اُبھرتا ہے اور اللہ کی محبت کا درد اللہ والوں کی محبت سے اُبھرتا ہے۔ ذرا اللہ والوں کے پاس رہو پھر دیکھو اللہ تعالیٰ کی محبت کا درد کیسے اُبھرتا ہے۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا کتنا پیارا شعر ہے ؎
دل ازل سے تھا کوئی آج کا شیدائی ہے
تھی جو اک چوٹ پرانی وہ اُبھر آئی ہے
صحبتِ اولیاء کی اہمیت
بس دوستو! کیا کہوں کہ اللہ والوں کی صحبت سے کیا ملتا ہے۔ یہ بتاؤ کہ اللہ قیمتی ہے یا نہیں؟ اُس سے بڑھ کر دونوں جہاں میں کوئی چیز قیمتی ہے؟ جب اللہ سب سے قیمتی ہے تو اس کاراستہ کتنا قیمتی ہوگا۔ کیا اس سے بڑھ کر دونوں جہاں کی کوئی چیز قیمتی ہوسکتی ہے؟ جب اللہ سب سے قیمتی ہے تو اس کاراستہ کیسا قیمتی ہوگا،جب راستہ قیمتی ہے تو اس راستے کا دِکھانے والا کتنا قیمتی ہوگا جس کو پیرو مرشد کہتے ہیں، اس کی قدر بھی کم لوگ جانتے ہیں۔
میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک گاؤں میں کسی نے