ادھر کوئی جائے گا بھی نہیں، اگر جائے گا تو تھوک کر چلا جائے گا۔ دیکھا! عاشق مولیٰ اور عاشق لیلیٰ کا فرق۔
میں یہی کہتا ہوں کہ اگر مجنوں کو اُس زمانے کا کوئی شمس الدین تبریزی مل جاتا تو اس کو عشق لیلیٰ سے نجات مل جاتی، وقت کا شمس الدین تبریزی اپنی روحانیت سے اس کے عشق لیلیٰ کو عشق مولیٰ سے بدل دیتا، اللہ والوں کی روحانی طاقت بہت ہوتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ مرید میں اخلاص اور ارادہ بھی ہونا چاہیے بلکہ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض غیر مخلص بھی اﷲ والے بن گئے۔
عالمگیر بادشاہ کا ایک سبق آموز قصہ
انڈیا کے شہر حیدرآباد دکّن کے جنگل میں ایک بہروپیا اﷲ والا بنا ہوا تھا، وہ اللہ والا نہیں تھا ، عالمگیر بادشاہ کو دھوکا دینے کے لیے نقلی اﷲ والا بنا ہوا تھا۔ بہروپیا کے معنیٰ ہیں جو روپیہ حاصل کرنے کے لیے روپ بنائے۔ جب عالمگیر ادھر سے گزرے تو اس بہروپیے کو اﷲ والا سمجھ کر اس سے دعا کرائی،بہروپیے نے کہا کہ فقیر دعا کرتا ہے، بادشاہ بڑا معتقد ہوا اور ایک ہزار اشرفیاں دیں، اس نے لات مار دی کہ جیسے تم دنیا کے کتے ہو، تو کیا مجھے بھی کتا سمجھتے ہو؟اس نے ایک ہزار اشرفیوں کو ٹھوکر مار دی، اب تو عالمگیر کے ہوش اُڑ گئے، کہنے لگے کہ یہ تو بہت بڑا ولی اللہ ہے۔جب بادشاہ آگے بڑھے تو بہروپیا ان کے پیچھے بھاگا اور کہا کہ حضور میں وہی بہروپیا ہوں جس کو دہلی میں آپ نے کئی دفعہ پہچانا مگر آج آپ مجھے نہیں پہچان سکے، میں کوئی اللہ والا نہیں ہوں، میں نے تو اللہ والے کا روپ بنایا تھا۔ تب عالمگیر نے کہا کہ مجھے کوئی غم نہیں ہے کیوں کہ آج تم اللہ والوں کے روپ میں تھے، اللہ والوں کی محبت میں اگر عالمگیر دھوکا کھالے تو اس دھوکے پر مجھے کوئی غم نہیں بلکہ یہ میرے عشق کا کمال ہے کہ میں اللہ والوں کا اتنا عاشق ہوں کہ نقلی اللہ والے پر بھی مرگیا تو اصلی اﷲ والوں پر کتنا مروں گا۔ پھر بادشاہ نے بہروپیےکو سوا شرفیاں دیں، ہزار اشرفیوں میں سے نو سو واپس لے لیں اور صرف سوا شرفیاں دیں۔ اس نے کہا جزاک اللہ! بہت بہت شکریہ۔ عالمگیر نے ایک سوال کیا کہ میں تو تم سے دھوکا کھا گیا تھا، تم ایک ہزار اشرفیاں پاگئے تھے، مزے سے رہتے لیکن تم نے اپنے کو ظاہر کردیا کہ