مل گئی اس کو ایک دولت تو یہ ملے گی کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا۔ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ میں فرماتے ہیں:
وَقَدْ وَرَدَ اَنَّ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ اِذَادَخَلَتْ قَلْبًالَا تَخْرُجُ مِنْہُ
اَبَدًا فَفِیْہِ اِشَارَۃٌ اِلٰی بَشَارَۃِ حُسْنِ الْخَاتِمَۃِ14؎
اللہ جس کو ایمان کی مٹھاس دے گا پھر کبھی واپس نہیں لے گا۔ یہ شاہی عطیہ ہے، بادشاہ کو اپنا عطیہ واپس لیتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اور اس میں یہ بشارت ہے کہ جس کو ایمان کی یہ مٹھاس ملے گی اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا ان شاء اللہ۔
تخلیق ِانسانیت کی بنیاد محبتِ الٰہیہ کی شرط پر ہے
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں بچہ ماں کے حیض سے بنتا ہے اور باپ کی منی اس کی بنیاد ہوتی ہے، ماں کو نو مہینہ حیض نہیں آتا، اسی حیض سے بچہ بنتا ہے، ماں کے حیض سے جو اعضا بنتے ہیں، پھیپھڑے بن رہے ہیں، دل بن رہا ہے، آنکھیں بن رہی ہیں مگر وہ حیض منہ سے جسم میں نہیں جاتا، اﷲ تعالیٰ بچے کے جسم میں ایک الگ پائپ لائن ڈالتے ہیں، اس کو آنول نال کہتے ہیں، جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ نال کاٹ دی جاتی ہے، اﷲ نے یہ نال اس لیے بنائی ہے کہ وہ گندہ خون بچے کے منہ سے نہ گزرے کیوں کہ ایک دن میرا بندہ اسی منہ سے اللہ کہے گا، میرا نام لے گا۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب یہ رگ کٹتی ہے تو بچے کو حیات ملتی ہے یعنی بچہ پیدا ہوگیا لہٰذا اب وہ رگ کاٹی جارہی ہے، اب بچہ عالم غیب سے عالم شہادت میں آرہا ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎
نافِ ما بر مہر خود ببریدہ ام
عشق خود در جانِ ما کاریدہ ام
اﷲ نے ہماری جو ناف کاٹی ہے وہ اپنے عشق و محبت کے وعدے پر کاٹی ہے کہ اب دنیا میں جارہے ہو تو وہاں ہمارے بن کر رہنا۔ اپنی محبت کے وعدے پر ہماری ناف کاٹی جارہی ہے اور
_____________________________________________
14؎ مرقاۃ المفاتیح:74/1، کتاب الایمان، المکتبۃ الامدادیۃ، ملتان