عالم ہم کو اللہ سے ایک اعشاریہ، ایک بال کے برابر بھی جدا نہ کرسکے، ہم اللہ پر ایسے مرجائیں، ایسے فدا ہو جائیں، ایسے چپک جائیں جیسے چھوٹا بچہ ماں سے چپٹا ہواہوتا ہے، اللہ جو خالقِ دوجہاں ہے، اس سے جن کے قلب و جاں چپٹے ہوئے ہیں وہ دونوں جہاں کی لذتیں چوستے رہتے ہیں، اسی لیے ان کے قلب و جاں سلاطین کو خاطر میں نہیں لاتے کیوں کہ جو اﷲ بادشاہوں کو بادشاہت کی بھیک دیتا ہے وہ ان کے دل میں ہے، لیلاؤں کو نمک دینے والا ان کے قلب میں ہے۔ اس لیے جو مولیٰ کو پاجائے وہ لیلاؤں سے مستغنی ہو جاتا ہے۔
جب زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام سے برے کام کا ارادہ کیا تو اللہ نے حضرت یوسف کے والد کا عکس ان کے سامنے کردیا،انہوں نے اپنے والد کی شبیہ دیکھی، اللہ تعالیٰ نے غیب سے ان کی مدد فرمائی۔ جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ میں اپنے عاشقوں سے برائی کو دور رکھوں تو ان کے سامنے ہر وقت لیلاؤں کے گراؤنڈ فلور کی گندگیاں رہتی ہیں کہ اگر ان حسینوں کو دیکھا تو شیطان ہم کو ان کے پیشاب پاخانے کی بدبودار نالیوں میں گھسیٹ لے گا۔ لہٰذا جن لوگوں نے نظر نہیں بچائی ان کا انجام یہی ہوا کہ داڑھی اور گول ٹوپی سمیت معشوقوں کی گٹر لائنوں میں گھس گئے اور زِنا میں مبتلا ہوگئے۔ اس لیے کہتا ہوں کہ ان کا فرسٹ فلور ہی مت دیکھو جو ہمیں مولیٰ سے دور کردے، ایسے گال ہی مت دیکھو جو ہمیں گٹرلائنوں میں دھکیل دیں، ایسے گال کیوں دیکھتے ہو؟ ایسے گالوں سے خیریت بھی مت پوچھو کہ تسی کی گَل ہے؟ ورنہ آب و گِل میں گھس جاؤ گے۔
دعوتِ دین کا ایک مفید طریقہ
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے نصیحت فرمائی ہے کہ تم جس قوم کو دعوت دو اس کی بولی بولو، اگر تم چاہتے ہو کہ چڑیا کو اللہ کی محبت سکھاؤ تو اس کی آواز میں بولو ورنہ وہ قریب نہیں آئے گی، اگر بلبل کو پھنسانا ہے توبلبل کی آواز بولو، کبوتر کو پھنسانا ہے تو کبوتر کی آواز بولو۔ جوا للہ کی طرف بلائے وہ اللہ کے بندوں کے مزاج کو بھی پہچانے، کچھ دیر اس کے مزاج کے مطابق بات کرکے اس کو پھنسائے پھر مولیٰ کی محبت کی آگ لگائے۔ دیکھو! اس لیے میں کبھی کبھی پنجابی بولتا ہوں، ان کی خاص بولی ہے تسی کی گَل ہے یعنی کیسا مزاج ہے، کیا حال ہے۔ تو میں یہ