پوچھا کہ یہاں ہلدی کا کیا بھاؤ ہے؟ ایک ستر اسی سال کے بوڑھے نے کہا کہ میاں ہلدی کا کوئی بھاؤ نہیں ہوتا، جتنا چوٹ میں درد ہوتا ہے اس کا بھاؤاتناہی بڑھ جاتا ہے۔ میرے شیخ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس کو اللہ تعالیٰ کی پیاس ہو، اﷲ کی طلب ہو، اللہ کی محبت میں بے چین ہو اس سے پوچھو کہ جب کوئی رہبر، رہنما اور پیر مل جاتا ہے تو اسے کتنی خوشی ہوتی ہے۔ تو اس قیمتی راستے پر چلنے والا کتنا قیمتی ہوگا۔
خدا کے راستے کے غم کی قیمت
ایک بات اور بتاتا ہوں کہ اللہ کو خوش کرنے کے راستے میں اگر آپ نے نظر بچا کر تھوڑا سا غم اٹھایا تو بتاؤ یہ غم اللہ کے راستے کا ہے یا دنیا کے راستے کا ہے؟ جب اللہ کا راستہ قیمتی ہے تو اس کے راستے کا غم قیمتی ہوگا یا نہیں؟
اختر یہ کہتا ہے کہ خدا کے راستے میں نظر بچالینے کا غم سارے غموں سے اتنا قیمتی ہے کہ سارے عالم کی خوشیوں کوترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیں اور اللہ کے راستے کا ایک ذرّہ غم دوسرے پلڑے میں رکھ دیں تو سارے عالم کی خوشیاں اگر اس غم کو سلامی پیش کریں تو اس غم کا حق ادا نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہ اللہ کے راستے کا غم ہے، یہ غم خوش نصیبوں کو ملتا ہے، قسمت والوں کو ملتا ہے، جن کے نصیبے اچھے ہوتے ہیں ان کو ملتا ہے۔ وہ اللہ کے راستے کا غم اُٹھا کر شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اے اللہ! یہ زخم حسرت آپ کا احسان و کرم ہے، میری سعادت اور میری قسمت ہے، کافر کو یہ غم کہاں نصیب ؎
نہ شود نصیبِ دُشمناں کہ شود ہلاک تیغت
سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی
کافروں کا یہ نصیب نہ ہو کہ وہ آپ کے خنجر کا نشانہ بنیں، ہم دوستوں کا سر سلامت رہے کہ آپ پر فدا ہوتا رہے۔ مان لیجیے کہ اللہ کے راستے میں دل پر تھوڑا سا غم آیا کہ کاش اسلام میں اجازت ہوتی کہ اس پیاری من مو ہنی شکل کو دیکھ لیتے۔ من موہنی پر یاد آیا کہ ایک صاحب نے کہا کہ میں نے پھول سے چہرے کی تمنا کی تھی۔ میں نے کہا کہ پھول کے مرجھانے سے اب وہ تمنا نہیں ہے۔ ایک شاعر نے کہاتھا جو میرا ہی شاگرد ہے کہ ؎