عشق ناپاک کی ناپاکیاں
آپ ان لوگوں سے پوچھیں جو رومانٹک مزاج ہیں کہ ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہیں۔ اور یہ محبت اس لیے بھی ناپاک ہے کہ جب معشوقوں کے عشق میں کوئی غزل کہتا ہے، اشعار کہتا ہے اگر اس کی شلوار کو آپ لیبارٹری میں دیجیے تو وہ ناپاک نکلے گی، اشعار کہتے کہتے آخری شعر یعنی مقطع سے پہلے ہی خطا ہو جاتا ہے، اسے پہلے ہی اس کے تصور سے مزہ آجاتا ہے، حرام مزے کی علامت یہی ہے کہ آدمی ناپاک ہو جاتا ہے اور پاک مزہ وہ ہوتا ہے جو آدمی کو پاک رکھتا ہے، پاک مزہ پاک رکھے گا، باوضو رکھے گا،بس مولیٰ کے نام پر مرنا سیکھو۔اسی لیے کہتا ہوں کہ دنیاوی عاشقوں میں کچھ مزہ نہیں ہے سوائے پریشانی اور ذلت و خواری کے۔
عشق مولیٰ کی آبادیاں اورعشق مجازی کی بربادیاں
گلشن اقبال میں ہماری خانقاہ کے سامنے ایک اخبار بیچنے والے نے ایک لڑکی کو چھیڑ دیا،یہ آنکھوں دیکھا حال بتا رہا ہوں، اس لڑکی کے سارے رشتہ دار اُسے جوتے مار رہے تھے، بال کھینچ رہے تھے۔ میں نے کہا کہ دیکھو یہ حسین کو ہینڈل کررہا تھا، اب اسے سینڈل پڑرہے ہیں، اور اللہ پر مرنے والے سے لوگ دعا کراتے ہیں کہ حضرت دعا کیجیے۔ دیکھا آپ نے کہ دونوں عشق میں کیا فرق ہے۔ جو اللہ تعالیٰ پر مرتا ہے اس کا یہ حال ہے کہ لوگ اس سے کہہ رہے ہیں کہ صوفی جی، حضرت صاحب! دعاؤں میں یاد رکھنا اور ان دنیاوی عاشقوں سے کوئی دعا نہیں کراتا بلکہ ان کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ دیکھو لعنتی آدمی جارہا ہے، عاشق و معشوق جنہوں نے آپس میں زنا کرلیایا کوئی اور بدمعاشی کرلی تو پہلے تو کہتے تھے کہ مرنڈا پی لو اور انڈا کھلالو اور حضور آپ تو حسن کے بادشاہ ہیں، اور اب ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں، پھر کوئی کسی سے دعا بھی نہیں کراتا، سلام بھی نہیں کرتا۔ میں نے بنگلہ دیش میں ایک رومانٹک آدمی سے پوچھا کہ جب کوئی آپس میں بدفعلی کا گناہ کرتا ہے تو پہلے جو ایک دوسرے کی خوب آؤبھگت ہورہی تھی مگر پھر اس کے بعد جب منہ کالا ہوتا ہے تو کیا وہ آپس میں ایک دوسرے سے دعا کراتے ہیں؟ یا ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں کہ حضرت میں جارہا ہوں، السلام علیکم ورحمۃ