کہتا ہوں کہ گال سے گَل مت پوچھو ورنہ تم کوگِل یعنی مٹی میں جانا پڑے گا۔
دعوتِ لذتِ دو جہاں
دیکھو! اختر دونوں جہاں کی لذت کی دعوت کا رُخ پیش کرتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کرو تو جنت پاؤ گے تو آدمی سوچتا ہے کہ جنت تو اُدھار ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ جنت نقد ہے، اللہ تعالیٰ کے قرب کی لذت جنت سے زیادہ ہے، کیوں کہ وہ خالق جنت ہے، قدیم ہے، واجب الوجود ہے، کہاں اللہ کہاں جنت، جنت مخلوق ہے اور اﷲ خالق ہے،خالق اور مخلوق برابر کیسے ہوسکتے ہیں۔ اسی زمین پر اگر آپ کروڑہا میل دور مولیٰ کو حاصل کرلیں تو ان شاء اللہ اللہ کو پا کر، مولیٰ کو پاکر جنت سے زیادہ مزہ آئے گا۔ لیکن اس دنیا میں اﷲ کا دیدار نہیں ہے اس لیے جنت دنیا سے افضل ہے، جنت کی فضیلت اسی لیے ہے کہ وہاں مولیٰ کے دیدار کا وعدہ ہے ؎
نہیں کرتے ہیں وعدہ دید کا وہ حشر سے پہلے
دلِ بے تاب کی ضد ہے، ابھی ہوتی یہیں ہوتی
بس اللہ کی مرضی پر فدا ہو جاؤ، خدا کو ناراض کرکے حرام مزے مت لوٹو، سلوک کا حاصل یہی ہے، تزکیۂ نفس کا حاصل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی سے حرام خوشیوں کو اپنے قلب میں مت لاؤ، عاشقوں کے لیے یہ کیا عشق ہے، یہ تو اپنے محبوب تعالیٰ شانہٗ کو ناخوش کر رہے ہو، رزق خدا کا کھا رہے ہو اور ان ہی کو ناراض کرکے حرام خوشیاں اینٹھ رہے ہو، اسی لیے آج ساری دنیا غم زدہ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ واللہ! ثم واللہ! ثم واللہ! جو اللہ کو خوش رکھ کر جیے گا اللہ اس کے قلب کو ہر حالت میں خوش رکھے گا، ناممکن ہے کہ خالق خوشی دل میں ہو اور اس کے دل میں غم داخل ہو جائے۔ اگر سوئٹزر لینڈ واٹر پروف گھڑیاں بنا سکتا ہے تواللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کے دل کو غم پروف کرسکتا ہے۔ تسلیم و رضا کی برکت سے غموں میں بھی وہ ہر لمحہ دل سے راضی رہے گا؎
کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است