دوستوں نے کہا کہ ان جرمن لڑکیوں پر تو دل بہت پاگل ہورہا ہے، میں نے ان سے کہا کہ اللہ سے توبہ کرکے میرا یہ شعر پڑھو، ابھی ابھی تمہارے لیے یہ اینٹی بایوٹک شعر بنایا ہے ؎
آگے سے مُوت پیچھے سے گُو
اے میر جلدی سے کر آخ تھو
اس شعر سے اس کے حسن کی عظمت ختم ہوجائے گی اور حسن کی عظمت ختم ہونا یہ بارہ آنے علاج ہوگیا، اب تھوڑی سی ہمت کرکے توبہ بھی کرلے کیوں کہ اگر دل میں حسن کی عظمت آجاتی ہے تو پھر آدمی اس حسین کا بندہ بن جاتا ہے، اس کے پیر پر سر رکھ دیتا ہے۔ اس لیے میں ایسے اشعار کہتا ہوں جن سے حسن کی عظمت ختم ہوجائے۔میں جو یہ مضمون بیان کرتا ہوں کہ حسینوں کا گراؤنڈ فلور گٹر لائنوں سے بھرا ہے، غلاظت اور بدبودار ریاح سے بھرا ہے، تو میں یہ حلال بیوی کے لیے نہیں کہتا بلکہ حرام چھڑانے کے لیے کہتا ہوں، یہ نہیں کہ بیوی کو جا کر کہہ دو کہ تم میں تو خراب ہوائیں بھری ہوئی ہیں لہٰذا ہم تم سے پیار نہیں کرسکتے۔ مجھے بعض خواتین نے فون کیا کہ آپ حسن کی دھجیاں بکھیرتے ہیں اور حسینوں کے پیٹ میں بھری گندگیوں کا تذکرہ کرتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کو میرا شوہر میرے پاس نہ آئے۔ لہٰذا میں ہر تقریر میں کہہ دیتا ہوں کہ حلال کی بیویاں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ کیوں کہ ان کے پیٹ سے ایسی اولاد مل سکتی ہے جو صاحبِ نسبت اور صدیقین ہوسکتی ہے، حافظ اور عالم ربانی بن سکتی ہے۔ قبر جو عالم برزخ ہے وہاں بھی اگر عمل اچھا ہے تو خوشبو ہی خوشبو رہے گی مگر حرام معشوقوں کے گراؤنڈ فلور میں ہگستان، موتستان اور پادستان ہے، ان ہی تین ملکوں میں گِھر جاؤ گے۔ اور حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنہوں نے صورت و شکل سے محبت کی، آخر میں اس کاانجام عداوت و نفرت سے بدل جاتا ہے کیوں کہ شکل یکساں نہیں رہتی، جب شکل کا جغرافیہ بدل گیا تو ملنا جلنا بھی بند ہوگیا اور نفرت و عداوت بھی ہوگئی۔ تو عشق مجازی کا آخری انجام نفرت و عداوت ہے۔ اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے عشق مجازی میں مبتلا ہوکر گناہ کرلیا تو فاعل اور مفعول دونوں ایک دوسرے کی نظروں میں ہمیشہ کے لیے ذلیل ہوجاتے ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا کہ عشق مجازی عذابِ الٰہی ہے۔