تھانہ بھون پہنچ کر جب ایک دوسرے کودیکھا تو کہا کہ ارے آپ کیسے آگئے؟ دوسرے نے کہا کہ آپ کیسے آگئے؟ بس دونوں شرمندہ بھی ہوئےکیوں کہ جن پر تبصرے کررہے تھے آج ان ہی کی چوکھٹ پر آگئے ؎
میرے حال پر تبصرہ کرنے والو
تمہیں بھی اگر عشق یہ دن دکھائے
خدا جب اپنی محبت کے دن دکھائے گا تو سب بھول جاؤ گے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نبی جب کلام کرتا ہے تو نبوت کا نور اس کے ہر لفظ میں شامل ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے اولیاء بھی جب کلام کرتے ہیں ، اللہ والے جب کوئی بات کرتے ہیں تو ان کے دل کا نور بھی ان کے الفاظ میں شامل ہوتا ہے،ان کا ہر لفظ ان کی نسبت کے نور کا کیپسول ہوتا ہے۔ جو تعلق مع اللہ ان کے دل میں ہوتا ہے اس کا نور بھی ان کے ہر لفظ میں شامل ہوتا ہے۔
سید سلیمان ندوی صاحب نے جب حضرت حکیم الامت تھانوی کی پہلی مجلس میں حاضری دی تو حضرت کی باتیں سن کر رونے لگے، جب مجلس ختم ہوئی تو کہا کہ بھئی ہم تو سمجھتے تھے کہ ہم بڑے مولانا ہیں، آج معلوم ہوا کہ علم تو ان بوریا نشینوں اور چٹائی پر بیٹھنے والوں کے پاس ہے۔ اس کے بعد جو شعر کہے اور اس مجلس کا جو نقشہ کھینچا اس کو سنیے، فرماتے ہیں ؎
جانے کس انداز سے تقریر تھی
پھر نہ پیدا شُبۂ باطل ہوا
آج ہی پایا مزہ قرآن میں
جیسے قرآں آج ہی نازل ہوا
چھوڑ کر درس و تدریس و مدرسہ
شیخ بھی رِندوں میں اب شامل ہوا
یہ ہے اللہ والوں کی صحبت کا اثر۔ علامہ سید سلیمان ندوی، علامہ شبلی نعمانی کا شاگردِ رشید،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سیرت نگار، اتنا بڑا علامہ کہتا ہے کہ اب میں اپنے شیخ کے پاس رہ کر اللہ کی