Deobandi Books

محبت الہیہ کے ثمرات

ہم نوٹ :

23 - 38
لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کمبخت  تو نے پی  ہی  نہیں
اسی طرح جو لوگ اہل اللہ کی صحبت کا مزہ چکھے ہوئے نہیں ہیں وہ خالی الذہن ہیں، میں ان کو کچھ نہیں کہتا، میں ان کی تنقیص اور تحقیر بھی حرام سمجھتا ہوں ۔ اس لیے کسی کا کیا پتا کہ کس کا خاتمہ کیسا ہونے والا ہے لیکن اللہ  سے دعا ضرور کرتا ہوں کہ اے خدا !جنہوں نے آپ کے مقبول بندوں کی صحبت کا مزہ نہیں چکھا،آپ کے نیک بندوں اور اولیاء اللہ کی صحبتوں کے مزے نہیں چکھے تو ان کی آنکھیں کھول دیجیے، اور انہیں بھی یہ مزہ چکھادیجیے۔ 
سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ  اور مولانا مسعود علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ  اعظم گڑھ شبلی منزل میں آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے کہ کیا بات ہے سب علماء تھانہ بھون بھاگے جارہے ہیں، وہاں کیا ہورہا ہے؟پھر خود ہی کہنے لگے کہ بس دیکھا دیکھی ایسے ہی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ مولانا مسعود علی ندوی اتنے بڑے عالم تھے کہ ایک مرتبہ دہلی میں بڑے بڑے لیڈروں سے ایک سیاسی مجمع بے قابو ہوگیا،بڑے بڑے مسلمانوں اور ہندوؤں نے کھڑے ہوکر ہنگامہ کردیا، مولانا مسعود علی ندوی نے چند جملے کہے اور مجمع بیٹھ گیا۔ اور ہندوستان کے شہر مدراس میں سید سلیمان ندوی کے خطبات ہوئے جو ’’خطباتِ مدراس‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ یہ دونوں بزرگ کہہ رہے ہیں کہ لوگ تھانہ بھون کیوں جاتے ہیں؟ پھر ہنسی مذاق میں کہا کہ ایسے ہی دیکھا دیکھی جاتے ہیں۔دونوں حضرت تھانوی پر تبصرے کررہے تھے۔ بعض اوقات اللہ والوں پر تبصرے بھی ہوتے ہیں، تنقیدیں بھی ہوتی ہیں۔اس پر ایک عجیب شعر یاد آیا؎
میرے  حال  پر  تبصرہ  کرنے  والو
تمہیں بھی اگر عشق یہ دن دکھائے 
کاش! تم کو بھی اللہ اپنی محبت کا مزہ چکھاتا تو تم بھی اللہ والوں کی جوتیاں اپنے سر پر رکھتے۔سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کیا تھے، اور مولانا اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کا کیا درجہ تھا۔
بہرحال ایک دن یہ دونوں عالم چھپ کر تھانہ بھون پہنچ گئے، کسی کو بتایا نہیں، ایک راستے سے سید سلیمان ندوی پہنچے اور دوسرے راستے سے مولانا مسعود علی ندوی پہنچے۔
Flag Counter