Deobandi Books

محبت الہیہ کے ثمرات

ہم نوٹ :

15 - 38
یہ خواجہ صاحب کا شعر ہے۔ اللہ والوں کی شکل معمولی انعام نہیں ہے ، بہت بڑی نعمت ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پودا زمین کے اندر ہے ، اوپر کسی نے پتھر رکھ دیا، اب پودا اندر ہی اندر بڑھ رہا ہے، جیسے ہی پتھر ہٹے گا وہ باہر آجائے گا۔ بہت سے لوگوں کے دلوں میں داڑھیاں ہیں مگر معاشرے کا پتھرہے، بیوی نے بھی ایک پتھر رکھا ہوا ہے  کہ خبردار داڑھی رکھوگے تو مجھے بہت خراب لگو گے ، تمہارے گال خراب لگیں گے، کانٹے کی طرح چبھیں گے جس کا نام خارِ مُغیلاں ہے، تو ایک پتھر بیوی نے رکھ دیا، ایک پتھر آفس والوں نے رکھ دیا۔ 
ایک سکھ کا عبرت آموز قصہ 
دوستو! عبرت کی بات ہے، ایک سِکھ امریکا گیا اور امریکن فوج میں نوکری کی درخواست دی کہ میں فوج میں نوکری کرنا چاہتا ہوں۔ کمانڈر اِن چیف نے کہا کہ سردار جی اپنی داڑھی منڈالو پھر امریکن فوج میں ہم تمہیں بھرتی کرلیں گے۔ اس سِکھ نے امریکا کے صدر کو ٹیلی گرام کیا کہ میں ڈھائی من کا ہوں، آپ کا کمانڈر اِن چیف کہتا ہے کہ داڑھی منڈاؤگے پھر فوج میں نوکری ملے گی، میں ڈھائی من کے جسم سے لیفٹ رائٹ کرتا ہوں، دوڑتا ہوں، جب ڈھائی من کا جسم لے کر دوڑ سکتا ہوں تو ایک چھٹانک داڑھی سے مجھے فوج کے کام انجام دینے میں کیا پریشانی ہوگی؟ اور اس نے لکھا کہ چوں کہ میرے پیشوا گرونانک نے داڑھی رکھی تھی لہٰذا میں اپنے پیشوا کی شکل و صورت کو چھوڑ نہیں سکتا۔  کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آپ کے پیشوا نہیں ہیں؟ محمد رسول اللہ کہنے والو! شرم سے گردن جھکالو کہ ایک باطل فرقہ اور باطل مذہب والا یہ کہتا ہے کہ میں اپنے پیشوا کی شکل کو نہیں چھوڑ سکتا، وہ صدر امریکا تک سے لڑرہا ہے اور آپ بیوی سے ڈر گئے، اور دفتر والوں سے ڈر گئے۔ حالاں کہ آپ کو تو یہ شعر پڑھنا چاہیے تھا؎  
ہم  کو  مٹاسکے  یہ  زمانے  میں  دم  نہیں 
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
اور خواجہ صاحب  کا یہ شعر پڑھنا چاہیے؎
Flag Counter