Deobandi Books

محبت الہیہ کے ثمرات

ہم نوٹ :

21 - 38
سن لے اے دوست جب ایام بھلے آتے ہیں
گھات ملنے  کی  وہ   خود  آپ  ہی  بتلاتے  ہیں
اسی کو شاعر کہتا ہے   ؎
مجھے سہل ہوگئیں منزلیں کہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے 
تیرا   ہاتھ   ہاتھ  میں آلگا تو  چراغ  راہ  کے  جل  گئے
دین کے آسان ہونے کا راستہ
ایک دن  حضرت نے فرمایا کہ حکیم اختر سن لو اللہ کا راستہ یوں تو بڑا مشکل ہے، لیکن اگر کسی اللہ والے کا ہاتھ ہاتھ میں آجائے،اس کی صحبت مل جائے تو یہ راستہ مشکل نہیں رہتا ، آسان ہوتا ہے بلکہ لذیذ بھی ہوجاتا ہے کہ سجدے میں مزہ آتا ہے ، سبحان ربی الاعلیٰ کہنے میں لطف آتا ہے کہ اے میرے ربا تو بہت اعلیٰ ہے ، پھر وہ سجدے کا مزہ لیتا ہے، رکوع کا مزہ لیتا ہے، اللہ کہنے کا مزہ لیتا ہے، مناجات کا مزہ لیتا ہے، اشکبار آنسوؤں سے لطف لیتا ہے۔  مولانا رومی فرماتے ہیں   ؎
اے دل ایں شکر خوشتر یا آنکہ شکر سازد
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کو خدا نُور سے بھردے ، اللہ تعالیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اے دل!یہ چینی زیادہ میٹھی ہے یا جو گنوں میں رس پید اکرتا ہے، جو چینی اور شکر کا بنانے والا ہے وہ زیادہ میٹھا ہے۔ واللہ کہتا ہوں کہ اگر اللہ اپنی محبت کا مزہ چکھادے تو ایک مرتبہ اللہ کہنے میں اتنا لطف آئے گا کہ زمین   سے آسمان تک اس کو شربت روح افزا بھرا ہوا محسوس ہوگا،   ہمدرد دواخانہ اتنا شربت روح افزا نہیں بناسکتا، کیوں کہ اللہ گنوں میں رس پیدا کرتا ہے ، جو خالق ہے  گنے کے رس کا تو اس کے نام میں کتنی مٹھاس ہوگی۔
آخر کوئی تو بات تھی، سلطان ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے سلطنتِ بلخ  بلاوجہ تھوڑی چھوڑی تھی ، کچھ پایا تھا تب چھوڑی تھی، جب اعلیٰ چیز ملتی ہے تب ادنیٰ چیز چھوٹتی ہے، جب اعلیٰ ملتی ہے تو ادنیٰ چھوٹ جاتی ہے۔
Flag Counter