Deobandi Books

محبت الہیہ کے ثمرات

ہم نوٹ :

26 - 38
بِکا تو پہلے جو تل کا تیل پانچ روپیہ کلو بکتا تھا جب گلاب کی صحبت اختیار کرکے تل کا تیل نکالا گیا اور اسے روغن گُل کہا گیا تو اس کا دام پچاس روپے کلو ہوگیا۔ اس نے کہا کہ گلاب کی صحبت کی وجہ سے آج ہم روغن  گل ہوگئے، ہم روغن کُنجد نہیں رہے، اب ہم کو کوئی تلی کا تیل نہیں کہہ سکتا۔ ہمارا نام بدل گیا، دام بدل گیا، کام بدل گیا۔
حصولِ مولیٰ کے لیے اخلاص ضروری ہے
یہ جو اجتماعات ہوتے ہیں، اللہ کے لیے جو ہم مل کر بیٹھتے ہیں، یہ خالص اللہ کے لیے بیٹھنا ہے، جمعہ کے وقت جو تقاریر ہوتی ہیں اس میں خلوص کامل ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ ایک شخص جس کو مقرر سے مناسبت نہیں ہے، لیکن جمعہ تو پڑھنا  ہے، لہٰذا وہ مجبوراً بیٹھا ہے۔  لیکن اِس وقت یہاں وہ ہی آئے گا جس کو انتہائی مناسبت ہوگی کیوں کہ یہ جمعہ کی نماز سے کافی پہلے کا وقت ہے، اکثر علمائے کرام یہاں بیان سن کر اپنے علاقے کی مسجد میں جاکر جمعہ کا بیان کرتےہیں اور جمعہ پڑھاتے ہیں۔اس لیے یہاں کوئی کسی مجبوری سے نہیں بیٹھا  ہے،صرف اللہ کے لیے یہاں آئے ہیں، کوئی دنیاوی لالچ بھی نہیں ہے، یہاں چائے بھی نہیں ملتی ہے۔ اگر ہم آپ کو ایک ایک پیالی چائے پلاتے تب تو آپ کہہ سکتے تھےکہ اگر آپ چائے نہیں پلاتے پھر  دیکھتے اتنا بڑا مجمع کہاں سے آتا، یہ تو چائے پانی کا اثر ہے۔ یہاں تو پانی بھی آپ خود پی لیتے ہیں، میں نہیں پلاتا۔
اختر نے جن اللہ والوں کی جوتیاں اٹھائی ہیں، جن تین دریاؤں سے اللہ نے مجھے استفادے کی توفیق بخشی ہےیعنی الٰہ آباد میں مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی، پھر شاہ عبدالغنی صاحب اعظم گڑھی، پھر حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ۔ تین دریا سے پانی پی پی کر اختر بڈھا ہوگیا ہے۔ آج ان ہی بزرگوں کی دعاؤں کا صدقہ ہے کہ آپ بغیر چائے پانی کے، بغیر جلیبی مٹھائی کے بیٹھے ہوئے ہیں،  یہ اللہ کی محبت کی مٹھائی ہے، یہ اتنی بڑی مٹھائی ہے جو ہمیشہ کھاتے رہو گے۔ اس پھل کا اللہ نے وعدہ کیا ہے، حدیث کی بشارت ہے کہ جو میرے لیے میرے کسی نیک بندے کے پاس جاتا ہے، وہاں اُٹھتا بیٹھتا ہے، اس کی زیارت کرتا ہے میں اپنی محبت دینا اس پر واجب کردیتا ہوں ۔
لہٰذا میں امید رکھتا ہوں کہ جو اللہ کے لیے کہیں بھی آنا جانا رکھے گا، یہ میرے لیے خاص نہیں ہے،  اختر تو اولیاء اللہ کے غلاموں کےغلاموں کے غلام کے برابر نہیں ہے۔ جہاں
Flag Counter