Deobandi Books

محبت الہیہ کے ثمرات

ہم نوٹ :

20 - 38
وہ انڈا تو مردہ تھا جس میں کوئی جان نہیں تھی لیکن مرغی کی صحبت سے حیات پاگیا، زندگی پاگیا اور چھلکوں  کے تعلقات کو توڑ کر انڈے کے قید خانے سے نکل آیا  ؎ 
کھینچی جو ایک آہ تو زنداں نہیں  رہا
مارا جو ایک  ہاتھ گریباں  نہیں  رہا
جب وہ باہر آگیا تو اس کو نصیحت کرنے والے نے کہا کہ اب تمہارا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ خدا تم کو جزائے خیر عطا فرمائے، میں مرغی کی صحبت سے ایک نئی حیات لے کر آرہا ہوں، اب میرے ذریعے سے دوسری نسلیں پیدا ہوں گی۔ جو آدمی اللہ والوں کی صحبتوں میں رہتے ہیں آہستہ آہستہ ان کو روحانی حیات مل جاتی ہے، اللہ والوں کی صحبت سےروح میں ایک نیا ایمان عطا ہوجاتا ہے۔
میرے مرشدِ اوّل حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ضلع اعظم گڑھ کی عید گاہ میں اوّابین پڑھی،اس وقت روشنی کا انتظام نہیں تھا، پرانا زمانہ تھا، بجلی نہیں تھی،      وہاں بہت سے درخت تھے، درختوں کے پتوں کے جھروکوں سے چاند کی شعاعیں چھن چھن کر حضرت پر پڑ رہی تھیں،حضرت عید گاہ کی محراب میں اوّابین پڑھ رہے تھے۔ کیوں کہ اس زمانے میں مسجد نہیں تھی، ہم لوگ عید گاہ میں نماز پڑھا کرتے تھے۔
حضرت نے اوّابین کے بعد مجھ سے فرمایا کہ حکیم اختر! میں یہیں پیدا ہوا ہوں، یہ میری پیدایش کی جگہ ہے۔ عید گاہ کی محراب کو شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ جیسا بڑا شخص، جس نے بارہ مرتبہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور جن کی صحبت میں مولانا            ظفر احمد عثمانی، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب اور علامہ بنوری جیسے محدثین و علماء ادب سے بیٹھتے تھے۔ اس شخص نے کہا کہ میں یہاں پیدا ہوا ہوں۔ میں نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت عید گاہ میں پیدا ہوئے؟ فرمایا میرے پیر و مرشد حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہٗ نے مجھے اسی جگہ بیعت کیا تھا ، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ مجھے نئی زندگی یہیں عطا ہوئی ہے، اس لیے اس کو تعبیر کرتا ہوں کہ میں یہاں پیدا ہوا ہوں۔ اللہ اکبر!  دوستو یہ ہیں وہ لوگ جن کا نصیب اللہ نے اچھا بنایا ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ اچھی قسمتیں دیتے ہیں ان کو اللہ والوں کی محبت بھی عطا کردیتے ہیں   ؎
Flag Counter