توشہ آخرت کے اعمال |
ہم نوٹ : |
من نخواہم بود این جا می روم سوئے شاہنشاہ راجع می شوم تم شور و غل مت مچاؤ،مجلس شوریٰ مت کرو، میں یہاں نہیں رہوں گا، میں یہاں سے جارہا ہوں،میں بادشاہ کا مقرب ہوں، مجھے بادشاہ اپنی کلائی پر بٹھاتا ہے، نگاہِ شاہ سے میری نگاہ ملتی رہتی ہے، اے الّوؤ! تم میری قدر کیا سمجھوگے؟ لیکن سب الّوؤں نے میٹنگ میں کہا کہ یہ ایسے نہیں جائے گا،اس کے پَر نوچ لو، جب کچھ پریشان کیا جائے گا اور ستایا جائے گا تو جلدی بھاگے گا۔جب اس نے مجلس شوریٰ کا فیصلہ سنا تو مولانا رومی فرماتے ہیں کہ بازِ شاہی نے کہا ؎گفت باز ار یک پر من بشکند بیخ چغدستاں شہنشہ برکند باز نے کہا کہ اگر تم نے میرا ایک پَر بھی توڑ ا تو بادشاہ تمہارے الّوستان کو جڑ سے اکھاڑ دے گا۔ تم نہیں سمجھتے ہو کہ ؎رُخ زرین من منگر کہ پائے آہنیں دارم چہ می دانی کہ در باطن چہ شاہِ ہمنشیں دارم مولانا رومی نے مثنوی روم میں یہ شعر ارشاد فرمائے ہیں کہ میرے پیلے چہرے کو مت دیکھو میں آہنی پیر رکھتا ہوں،تمہیں پتا نہیں کہ میں باطن میں کس شہنشاہ کو رکھتا ہوں۔ لہٰذا اہل اللہ کو اپنے اوپر قیاس نہ کرنا چاہیے۔بعض وقت اللہ والوں سے اللہ تعالیٰ ایسی باتیں کہلوا دیتے ہیں لیکن حاسدین سمجھتے ہیں کہ یہ اپنے فضائل بیان کررہا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے میرے شیخ اوّل مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ دیکھو حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ پہلے فرماتے تھے کہ اگر قیامت کے دن اللہ پوچھے گا کہ کیا لائے ہو؟ تو مولانا قاسم اور مولانا رشید کو پیش کروں گا لیکن اب میرے دل کا فیصلہ بدل گیا، اب میرا اعتقاد یہ ہے کہ اشرف علی ان دونوں سے اونچا ہوگیا۔ یہ بات حضرت شاہ عبد الغنی صاحب نے مجھ سے خود فرمائی۔