آثار محبت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
ہو، متقی ہو اور التَّوَّابْ ہو، ایسے بندے کو اللہ تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں ہردوئی حاضر ہوا تو میرے شیخِ ثانی مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم کے والد کے دوستوں میں سے ایک بڑے میاں تھے، انہوں نے حضرت سے کہا کہ مولانا! میں تو بالکل ناکام اور نامراد مررہا ہوں، میرا کیا حال ہوگا؟ حضرت نے فرمایا کہ ؎جو ناکام ہوتا رہے عمر بھر بھی بہرحال کوشش تو عاشق نہ چھوڑے یہ رشتہ محبت کا قائم ہی رکھے جو سو بار ٹوٹے تو سو بار جوڑے اس کو یوں سمجھیے کہ جب کوئی بادشاہ آپ کو بلائے پھر دوبارہ بلائے تو سمجھ لیجیے کہ اس کا پہلا جانا قبول ہے ورنہ اگر ناراض ہوجاتا تو پھر دوبارہ اپنے گھر میں گھسنےنہیں دیتا۔ جس کی نماز قبول ہو جاتی ہے اسی کو اللہ دوسرے وقت میں نماز پڑھنے کی توفیق دیتا ہے، اگر ہم نے فجر پڑھ لی اور ظہر بھی پڑھ لی تو ظہر پڑھنا فجر کی قبولیت کی علامت ہے۔ ایسے ہی جس شخص نے اللہ سے رو رو کر توبہ کرلی اس کے بعد اس سے پھر وہی خطا ہوگئی جس سے اس نے توبہ کی لیکن وہ پھر دو رکعات پڑھ کر اللہ سے زارو قطار رورہا ہے، گریہ و زاری کررہا ہے تو یہ پہلی توبہ کی قبولیت کی علامت ہے، اگر اس کی پہلی توبہ قبول نہ ہوئی ہوتی تو دوسری دفعہ اس کو توبہ کی توفیق نہ ہوتی۔ انسان تو کہہ دیتا ہے کہ خبردار! اب کبھی معافی نہیں ہوگی، اب میرے پاس آنا بھی نہیں،لیکن جب بندہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے تو یہ علامت ہے کہ اس کی پہلی توبہ قبول ہے ورنہ دوسری توبہ کی توفیق نہ ہوتی، یہ قرآن پاک کا نصِ قطعی ہے،اللہ پاک نےفرمایا اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ 2؎ یُحِبُّ فعل مضارع ہے اور مضارع میں دو زمانے ہوتے ہیں،ایک حال اورایک استقبال یعنی حال کا زمانہ بھی ہوتا ہے اور مستقبل کا زمانہ بھی ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں اور فرما تے رہیں _____________________________________________ 2؎البقرۃ:222