آثار محبت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
رہتے ہوں وہاں کتنی رحمت نازل ہوگی، جن کے تذکرے سے رحمت برستی ہے جہاں وہ خود موجود ہوں اس جگہ رحمتوں کے نزول کا کیا عالم ہوگا۔ اسی لیے وہاں توبہ اور استغفار جلد قبول ہوتی ہے، وہاں اللہ سے اپنی حاجت کہی جائےیعنی دعا مانگنے کا اہتمام کیا جائے، ہر ایک کو دوسرے سے یہی حسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ یہ اﷲ والا ہے۔ حاجی امدا داللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ میرے پاس اللہ کی محبت سیکھنے آتے ہیں میں ان کے قدموں کی زیارت کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔ میں بھی اپنے گھر والوں سے، اپنے بیٹے سے، اپنی بہو سے، اپنی بیٹی سے، اپنی بیوی سے کہتا ہوں کہ جو مرد اور خواتین اللہ کی محبت میں ہمارے یہاں آتے ہیں ان کے قدموں کی زیارت کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھو، اپنی بڑائی محسوس نہ کرو کہ میرے دروازہ پر اتنے لوگ آتے ہیں۔ حاجی صاحب ہمارے سلسلہ کے اکابر میں سے ہیں، انہوں نے ہمیں یہ تواضع سکھادی کہ یہ خیال کرو کہ ان آنے والوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ ہماری مغفرت فرمادے، اﷲ کی ذات سے امید رکھو اور ان مسلمانوں کا اکرام کرو۔ اللہ تعالیٰ سے ناامیدی حرام ہے تو میں یہ عرض کررہا تھا کہ تو بہ میں اللہ تعالیٰ نے خاص بات رکھی ہے کہ کبھی توبہ سے مایوس نہ ہونا، اگر توبہ کرنے بعد پھر کبھی گناہوں کا صدور ہوجائے تو توبہ کی قبولیت سے ناامید ہوکر گناہوں میں مت پڑے رہنا بلکہ دوبارہ رو رو کر توبہ و استغفار اور آہ و زاری میں مشغول ہوجانا۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎کوئے نومیدی مرو امید ہاست سوئے تاریکی مرو خورشید ہاست ناامیدی کی گلی میں جانا بھی مت، اﷲ کے یہاں ایک امید نہیں غیرمحدود امیدیں ہیں اور اندھیری گلیوں کا رُخ بھی مت کرنا کیوں کہ اللہ کی رحمت کے بے شمار سورج ہیں، آسمان کا تو ایک ہی سورج ہے لیکن اللہ کی رحمت کے بے شمار سورج ہیں۔ بعض وقت ایک آہ میں بندہ کا کام بن جاتا ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎