آثار محبت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
ہفتِ شہرِ عشق را عطار گشت ما ہنوز اندر خم ِ یک کوچہ ایم با با فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی محبت کے سات شہروں کو طے کر لیا اور میں ابھی ایک گلی کے موڑ پر ہی پڑا ہوا ہوں۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ اللہ کی محبت سیکھو، دنیا کی چیزوں میں زیادہ مت لگو، دل کو ان میں مت پھنساؤ، دنیا بالکل چھوٹنے والی ہے، جتنا زیادہ دنیا کا گوند لگاؤ گے روح کو نکلنے میں اتنی ہی تکلیف ہوگی، دنیا میں ایسے رہو کہ جس وقت اللہ چاہے بلالے، ہر وقت تیار بیٹھے رہو۔ دیکھو بھی نہیں کہ بچہ کدھر ہے اور بیوی کدھر ہے، اللہ سے بڑھ کر ہمارا کون ہے، ہماری قبر میں کون جائے گا۔ میدانِ محشر میں ہمیں کون عذاب سے بچا سکتا ہے۔ یہ سب رشتے ناطے دنیا ہی میں رہ جائیں گے، جب گاڑھا وقت آئے گا تو ماں باپ ایک نیکی بھی نہیں دیں گے۔ حدیث پاک سن چکے ہو کہ آدمی ایک نیکی مانگے گا، امّاں نہیں دے گی، ابّا نہیں دے گا، شوہر نہیں دے گا، بیوی نہیں دے گی، اس وقت کوئی کام نہیں آئے گا۔ اللہ کی اطاعت میں مخلوق کے طعنوں سے نہ گھبرائیں تو دوستو! یہ عرض کررہا تھا کہ جگر صاحب نے شراب چھوڑ دی اور داڑھی رکھ لی، جب داڑھی رکھ لی تو بڑا مذاق اڑا، اس وقت جگر صاحب نے بزبانِ حال ایک شعر پڑ ھا ؎اے دیکھنے والو! مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنادے ارے ظالمو! تمہیں اللہ کے نبی کی محبت کہیں میری طرح داڑھی والا نہ بنادے، کب تک صفا چٹ رہو گے، تم خود بھی داڑھی نہیں رکھتے اور دوسروں کو بھی رکھنے نہیں دیتے۔ مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب شہادت گاہ میں پڑے ہوئے تھے، جنگ میں بے چارے کی دونوں ٹانگیں کٹ گئی تھیں، اکیلے لیٹے ہوئے گھبرا رہے تھے، اتنے میں ایک ہندو بنیا وہاں سے گزرا تو اس نے بنیے کو بلایا کہ او لالہ جی! یہاں آؤ، بنیا اس کے