آثار محبت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
مضبوط ہے کہ اپنے آپ کو پیش کررہا ہے کہ مجھے نشتر مارو۔ اب گورنر صاحب جلدی سے دوڑے، ان کو پکڑ کرلائے، معافی مانگی اور کہا کہ میرے آدمی نے آپ کو پہچانا نہیں، اور اس پولیس والے کو بہت ڈانٹا۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے اولیاء پر نوازش و عنایات تو یہ عرض کررہا تھا کہ اللہ والوں کی دعاؤں کو عام لوگوں کی دعاؤں جیسا مت سمجھو۔ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ میں لکھتے ہیں کہ سلطان ابراہیم ابن ادہم رحمۃ اللہ علیہ جارہے تھے، ایک شرابی مسلمان شراب پیے ہوئے، حالتِ نشہ میں سڑک کے درمیان پڑا تھا۔ یہ بات اس لیے پیش کررہا ہوں کہ اللہ والے اپنے جسم و جاں کو، اپنی خواہشات کو خدا پر فدا کرتے ہیں، ان کو جلا کر خاک کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ بھی ان کی سنتا ہے۔ سلطان ابراہیم ابن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا کہ ایک شرابی مسلمان شراب کے نشہ میں قے کیے ہوئے مدہوش پڑا ہے اور اس کے منہ پر مکھیاں بھنک رہی ہیں، آپ نے کہا کہ ہائے کیسا ظالم ہے، جس منہ سے لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ پڑھتا ہے، جس منہ سے اللہ کا نام لیتا ہے، اسی منہ سے یہ ظالم شراب پیتا ہے، پھر ان کو خیال آیا کہ آخر ہے تو خدا کا بندہ۔ اگر دوست کا بیٹا نالائق ہو تو وہ اپنے دوست کے نالائق بیٹے سے نفرت نہیں کرے گا، اس پر رحم کرے گا کہ میرے دوست کا بیٹا ہے۔ تو ان کو رحم آیا، جاکر پانی لائے، اس کا منہ دھویا، اس سے مکھیاں دور کیں، جب اس کے چہرے پر ٹھنڈا ٹھنڈا پانی لگا تو اسے ہوش آنے لگا، سلطان ابراہیم ابن ادہم کو دیکھا تو پوچھا کہ حضرت! آپ اتنے بڑے ولی اللہ مجھ جیسے نالائق کے پاس کیسے آگئے؟ فرمایا کہ تم شراب کی حالت میں تھے، تمہارے چہرے پر مکھیاں بھنک رہی تھیں، اس پر مجھے رحم آگیا۔ عرض کیا کہ آپ کو اتنا رحم آیا تو مجھ کو بھی اﷲ نے توبہ نصیب کردی، میرے قلب میں آواز آرہی ہے کہ اے شخص توجلدی سے اس کے ہاتھ پر بک جا، اپنا ہاتھ بڑھائیے، میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کرتا ہوں کہ آج سے شراب نہیں پیوں گا۔ بس اسی وقت وہ صاحبِ نسبت ہوگیا، باخدا ہوگیا، ولی اللہ بن گیا ؎