آثار محبت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
اس حدیث کی شرح میں محدثین فرماتے ہیں کہ کام تو اللہ پاک نے کردیا پھر پیمائش کا کیا فائدہ ہوا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ھٰذَا فَضْلٌ فِیْ صُوْرَۃِ عَدْلٍ عدل کی صورت میں فضل پوشیدہ تھا،5 ؎ یعنی فرشتوں کے ذریعہ زمین کی پیمائش کرانا عدل ہے اور اپنے حکم سے زمین کو قریب کرنا فضل ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہے ؎حسن کا انتظام ہوتا ہے عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے نیک اعمال کا صدور توفیقِ الٰہی سے ہوتا ہے ہمارا آپ کا صرف نام ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں حالاں کہ اللہ ہی مسجد میں بلاتا ہے، خدائے تعالیٰ ہی گناہوں سے نفرت و کراہت نصیب کرتے ہیں۔ جن پر فضل نہیں ہے وہ گٹر کی گندی نالیوں میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں گناہ کی نحوست کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ بس سارا کام اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا نے ہی سے بنتا ہے، ان ہی کے فضل سے تزکیہ نصیب ہوتا ہے لیکن اسباب کو اختیار کرنا چاہیے، اور اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ نیک لوگوں کی بستی میں جاؤ، اہل اللہ کے پاس جاؤ، اگر اہل اللہ نہیں ملتے تو ان کے غلاموں کے پاس جاؤ، ان کے صحبت یافتہ لوگوں کے پاس جاؤ۔ شیخ سے نفع کا دارومدار روحانی مناسبت پر ہے یہ بات اس لیے کہتا ہوں کہ بعض نادان لوگ حسد کی وجہ سے یا نادانی سے یہ کہتے ہیں کہ اختر لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہے، خود کو اللہ والا کہتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس نادانی اور حسد کا کیا ٹھکانہ ہے۔ میں جو بار بار کہتا ہوں کہ اللہ والوں کے پاس جاؤ یا ان کے غلاموں کے پاس جاؤ، تو غلام کا اشارہ اختر کی طرف ہوتا ہے، جس نے اﷲ والوں کی صحبت اٹھائی ہے، میں اپنے کو اللہ والا نہیں کہتا، اللہ والوں کا غلام کہتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ جس کو مجھ سے مناسبت _____________________________________________ 5؎فتح الباری: 517/6، باب قولہ ام حسبت ان اصحٰب الکہف ، دارالمعرفۃ، بیروت