آثار محبت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ مثنوی مولانا روم میں فرماتے ہیں کہ اس نے کہا کہ میرا عمل کیا پوچھتے ہو، جیسے کسی کا جوان بیٹا مرجائے تو اس کے صدمے اور غم کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، اسی طرح اس وقت میرے صدمے کی کوئی انتہا نہیں ہے، میری زندگی میں کبھی جماعت نہیں چھوٹی تھی، آج جماعت چھوٹ گئی، اس لیے میرے دل سے آہ نکل گئی۔ اس پر وہ اﷲ والے کہنے لگے کہ میری جماعت کی نماز کا ثواب تم لے لو اور اپنی آہ مجھے دے دو، تبادلہ کرلو، وہ بے چارہ سیدھا سادہ تھا، اس نے سوچا کہ کہاں جماعت کی نماز اور کہاں میری آہ، اس نے جلدی سے سو دا طے کرلیا کہ میں اپنی آہ تمہیں دیتا ہوں جو جماعت چھوٹنے کے غم میں نکلی تھی اور تم قیامت کے دن اپنی جماعت کی نماز کا ثواب مجھ کو دے دینا، معاملہ طے ہوگیا۔ اب جس اﷲ والے نے اس شخص کی آہ خریدی تھی،انہوں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ اے شخص! تو نے اپنی جماعت کی نماز کا ثواب اس کو دے دیا اور اس کی آہ خود لے لی، میں نے اس کی آہ کو اس طرح قبو ل کیا ہے کہ اس کی آہ کی برکت سے مسجد کے سارے نمازیوں کی نماز قبول کرلی۔ اس لیے کبھی کسی کو حقیر مت سمجھو، گناہ گاروں کو بھی حقیر مت سمجھو، ایک آہ کھینچے گا اور عمرے کرنے والوں اور تسبیح پڑھنے والوں سے آگے بڑھ جائے گا، ان کو برائی سے روکنا اور سمجھانا تو ضروری ہے، نکیر واجب ہے لیکن تحقیر حرام ہے، کسی کو حقیر سمجھنا کسی کے لیے جائز نہیں۔ خواجہ صاحب کے نعتیہ کلام کی اثر آفرینی جگرؔ مراد آبادی آل انڈیا شاعر تھے، کانپور کے ایک مشاعرہ میں جگر صاحب اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بہت محبوب خلیفہ خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک ساتھ جمع ہوگئے۔ اس مشاعرہ میں جگر صاحب کو بھی اپناکلام پڑھنا تھا اور حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اپنی نعتیہ غزل پڑھنی تھی۔ خواجہ صاحب نے جگرؔ صاحب سے کہا کہ پہلے آپ پڑھیے، انہوں نے کہا کہ نہیں پہلے آپ پڑھیے۔ خواجہ صاحب نے اپنی نعتیہ غزل پڑھی، ابھی ایک ہی شعر پڑھا تھا کہ جگر صاحب