Deobandi Books

آثار محبت الہیہ

ہم نوٹ :

10 - 34
گے۔ یہاں مستقبل کے زمانہ کا ترجمہ ضروری ہے کیوں کہ مضارع میں دونوں زمانے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اَحَبَّ نہیں فرمایا یُحِبُّ فرمایا، اَحَبَّ فعل ماضی ہے جس کا مطلب ہے       کہ اللہ تعالیٰ صرف ایک دفعہ  توبہ قبول کرکے محبوب بنالیتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے صیغۂ مضارع استعمال فرمایا جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ بندہ مرتے دم تک ہزار بار بھی توبہ کرے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کی ہر توبہ قبول فرمائیں گے؎ 
باز    آ    باز  آ   ہر آنچہ   ہستی    باز  آ
گر  کافر   و  گبر   و   بت   پرستی   باز   آ
ایں  درگہہ  ما در  گہہ  نومیدی  نیست 
صد    بار    اگر    توبہ  شکستی    باز    آ
باز آؤ، باز آؤ، اگر سو دفعہ توبہ ٹوٹ گئی تب بھی  جس حالت میں ہو باز آؤ۔ کافر ہو، آتش پرست ہو، بت پرست ہو، سب کی توبہ قبول کرنے کے لیے اللہ کا دربار کھلا ہوا ہے۔ جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتے ہیں۔ مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک شخص اونٹ پر جارہا تھا، اس کا کھانا پینا اس کے اونٹ پر لدا ہوا تھا، راستہ میں ایک جگہ وہ آرام کے لیے رُکا تو اس کی آنکھ لگ گئی، جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اونٹ غائب ہے، اس نے سوچا کہ اب جنگل میں نہ تو کھانا ملے گا نہ پانی ملے گا، سارا سامان بھی اونٹ پر تھا، اس کا سارا زادِ راہ اور توشہ غائب ہوگیا، سواری بھی غائب ہوگئی، اس نے سوچا کہ اب تو مرنا ہی ہے لہٰذا کسی درخت کے سائے کے نیچے لیٹ جاؤ، کئی دن کافاقہ ہوگا اور آخر میں روح نکل جائے گی، اب بھوک میں لیٹا سورہا ہے، جب آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ میرا اونٹ واپس آگیا اور اس پر جو کچھ کھانا اور پانی تھا سب آگیا تو اس کو اتنی خوشی ہوئی کہ مارے خوشی کے اس نے کہا کہ اے اللہ! میں تیرا رب ہوں اور تو میرا بندہ ہے۔اتنا خوش ہوا کہ دماغی توازن معتدل نہیں رہا، کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ میں آپ کا بندہ ہوں اور آپ میرے رب ہیں، آپ نے ہم پر بڑی مہربانی فرمائی مگر مارے خوشی کے عقل میں اعتدال نہ رہا، خوشی کے غلبہ سے اس کے منہ سے یہ نکل گیاکہ اے اللہ! میں آپ کا رب آپ میرے بندے، لیکن اللہ نے اس پر اس کی گرفت نہیں کی کیوں کہ اس وقت مارے
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 کام رونے ہی سے بنتا ہے 6 1
3 علاماتِ قبولیتِ توبہ 8 1
4 حدیثِ پاک میں اہل اللہ کے پاس قبولیتِ توبہ کا واقعہ 11 1
5 نیک اعمال کا صدور توفیقِ الٰہی سے ہوتا ہے 12 1
6 شیخ سے نفع کا دارومدار روحانی مناسبت پر ہے 12 1
7 اہل اللہ کے تذکرہ سے اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے 13 1
8 اللہ تعالیٰ سے ناامیدی حرام ہے 14 1
9 کسی کو حقیر سمجھنا حرام ہے 15 1
10 خواجہ صاحب کے نعتیہ کلام کی اثر آفرینی 16 1
11 روضۂ مبارک پر حاضری کا ایک ادب 18 1
12 صحبتِ اولیاء روحانی حیات کا ذریعہ ہے 18 1
13 جگر صاحب کی حضرت تھانوی سے چار دعاؤں کی درخواست 19 1
14 جگر صاحب کی سردار عبد الرب نشتر سے ملاقات 20 1
15 اللہ تعالیٰ کی اپنے اولیاء پر نوازش و عنایات 21 1
16 اللہ تک پہنچنے کا مختصر راستہ 22 1
17 دین میں ہر ایک کی اتباع نہیں 23 1
18 جگر صاحب کی قبولیتِ دعا کے آثار 23 1
19 اطاعتِ خدا میں موت کی حیاتِ معصیت پر فضیلت 25 1
20 مسلمانوں کے زوال کا اہم سبب حُبّ دنیا ہے 26 1
21 دنیا سے دل نہ لگانے کا طریقہ 26 1
22 اللہ کی اطاعت میں مخلوق کے طعنوں سے نہ گھبرائیں 27 1
23 آثارِ محبتِ الٰہیہ 28 1
24 خدا کو ہر حال میں یاد رکھیں 29 1
25 اشاعتِ دین کا ایک سہل طریقہ 30 1
Flag Counter