آثار محبت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
گے۔ یہاں مستقبل کے زمانہ کا ترجمہ ضروری ہے کیوں کہ مضارع میں دونوں زمانے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اَحَبَّ نہیں فرمایا یُحِبُّ فرمایا، اَحَبَّ فعل ماضی ہے جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ایک دفعہ توبہ قبول کرکے محبوب بنالیتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے صیغۂ مضارع استعمال فرمایا جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ بندہ مرتے دم تک ہزار بار بھی توبہ کرے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کی ہر توبہ قبول فرمائیں گے ؎باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ ایں درگہہ ما در گہہ نومیدی نیست صد بار اگر توبہ شکستی باز آ باز آؤ، باز آؤ، اگر سو دفعہ توبہ ٹوٹ گئی تب بھی جس حالت میں ہو باز آؤ۔ کافر ہو، آتش پرست ہو، بت پرست ہو، سب کی توبہ قبول کرنے کے لیے اللہ کا دربار کھلا ہوا ہے۔ جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتے ہیں۔ مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک شخص اونٹ پر جارہا تھا، اس کا کھانا پینا اس کے اونٹ پر لدا ہوا تھا، راستہ میں ایک جگہ وہ آرام کے لیے رُکا تو اس کی آنکھ لگ گئی، جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اونٹ غائب ہے، اس نے سوچا کہ اب جنگل میں نہ تو کھانا ملے گا نہ پانی ملے گا، سارا سامان بھی اونٹ پر تھا، اس کا سارا زادِ راہ اور توشہ غائب ہوگیا، سواری بھی غائب ہوگئی، اس نے سوچا کہ اب تو مرنا ہی ہے لہٰذا کسی درخت کے سائے کے نیچے لیٹ جاؤ، کئی دن کافاقہ ہوگا اور آخر میں روح نکل جائے گی، اب بھوک میں لیٹا سورہا ہے، جب آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ میرا اونٹ واپس آگیا اور اس پر جو کچھ کھانا اور پانی تھا سب آگیا تو اس کو اتنی خوشی ہوئی کہ مارے خوشی کے اس نے کہا کہ اے اللہ! میں تیرا رب ہوں اور تو میرا بندہ ہے۔اتنا خوش ہوا کہ دماغی توازن معتدل نہیں رہا، کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ میں آپ کا بندہ ہوں اور آپ میرے رب ہیں، آپ نے ہم پر بڑی مہربانی فرمائی مگر مارے خوشی کے عقل میں اعتدال نہ رہا، خوشی کے غلبہ سے اس کے منہ سے یہ نکل گیاکہ اے اللہ! میں آپ کا رب آپ میرے بندے، لیکن اللہ نے اس پر اس کی گرفت نہیں کی کیوں کہ اس وقت مارے