آثار محبت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
خوشی کے عقل ٹھکانے ہی نہیں ہے، اللہ تو دل کی کیفیت جانتا ہے کہ دل سے تو یہ کہنا چاہتا ہے کہ میں آپ کا بندہ ہو ں لیکن منہ سے کچھ اور نکل رہا ہے۔ یہ انتہائی خوشی کی تعبیر ہے۔ حدیثِ پاک میں اہل اللہ کے پاس قبولیتِ توبہ کا واقعہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب کوئی بندہ اپنی گناہ گار زندگی سے توبہ کرنے اہل اللہ کے پاس آتا ہے اور توبہ کرتا ہے کیوں کہ نیک بستی میں جاکر یا نیک بندوں کے پاس جاکر توبہ جلد قبول ہوتی ہے۔ اب اس کی دلیل بھی سن لیجیے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ گناہ گاروں کی ایک بستی کا نام کفرہ تھا،3؎ وہاں ایک آدمی نے سو قتل کردئیے، ایک عالم ربانی نے اس سے کہا کہ اس بستی میں جاؤ جہاں صالحین رہتے ہیں، جس کانام نصرہ ہے، وہاں تمہاری توبہ قبول ہوگی، ابھی یہ اس بستی میں پہنچا بھی نہیں تھا، آدھے راستہ میں تھا کہ اس کی روح نکل گئی، انتقال ہوگیا، لیکن مرتے مرتے بھی اس نے اپنے سینے کو گھسیٹ کر اس بستی کے قریب کردیا، تو اللہ تعالیٰ نے اسی ادا پر اس پر فضل کردیا۔ جب یہ مرگیا تو نیک اور بد دونوں قسم کے انسانوں کی روح نکالنے والے فرشتے آگئے اور آپس میں جھگڑنے لگے کہ اس کی روح ہم لے کر جائیں گے، اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ زمین کو ناپ لو، اگر یہ گناہوں والی زمین یعنی کفرہ کے قریب ہے تو برے آدمی کی روح لے جانے والے فرشتے اس کی روح لائیں گے اور اگر یہ صالحین کی بستی یعنی نصرہ کے قریب ہے تو نیک آدمیوں کی روح لانے والے فرشتے اس کی روح لائیں گے، اب اِدھر فرشتے زمین ناپنے لگے اُدھر اﷲ نے زمین کو حکم دیا کہ اے نیکوں والی بستی کی زمینتَقَرَّبِیْ قریب ہوجا اور جو گناہوں والی بستی کی زمین تھی اس کو اللہ نے حکم دیاتَبَاعَدِیْ دور ہوجا۔ جب فرشتوں نے زمین ناپی تو بروں کی بستی کفرہ سے اس کا فاصلہ زیادہ نکلا اور صالحین کی بستی نصرہ سے اس کا فاصلہ کم تھا چناں چہ نیک لوگوں کی روح لے جانے والے فرشتوں نے اس کی روح کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور آسمان پر لے گئے۔4؎ _____________________________________________ 3؎فتح الباری: 517/6، باب قولہ ام حسبت ان اصحٰب الکہف ، دارالمعرفۃ، بیروت 4؎صحیح البخاری :493/1، باب حدیث الغار، المکتبۃ القدیمیۃ