آثار محبت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
آثارِ محبتِ الٰہیہ اَلْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ کام رونے ہی سے بنتا ہے بیان شروع کرنے سے پہلے ایک گزارش کرتا ہوں کہ جو خواتین اپنے ساتھ چھوٹے بچوں کولاتی ہیں، جب وہ روتے ہیں تو سننے والوں کے مضمون سننے میں خلل پڑتا ہے۔ اس لیے اپنے ساتھ ان کے لیے کوئی بسکٹ ٹافی بھی لائیں کیوں کہ بچوں کالا نابھی ضروری ہے اور مضمون سننا بھی ضروری ہے، اس لیے ایک بسکٹ ان کو دے دیا تو وہ خوش ہوجائیں گے، ایک بسکٹ یا ایک ٹافی بچوں کے آنسو سے زیادہ قیمتی نہیں ہوتے، بسکٹ ٹافی سے بچے بہل جاتے ہیں۔ بچوں کے رونے پر ایک بات یاد آئی۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں اپنی پڑھائی کے زمانے میں اپنے استاد مولانا اصغر میاں صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو ایک خاتون اپنے بچہ کو لے کر آئیں اور کہا کہ حضرت جی! یہ بہت روتا ہے، اس کو نہ رونے کا تعویذ دے دیجیے، تو حضرت نے ہنس کر فرمایا کہ رونا تو ہم بڑوں کو چاہیے لیکن جب ہم بڑے نہیں رو رہے ہیں تو اگر یہ بچے بھی نہیں روئیں گے تواللہ تعالیٰ کی رحمت کیسے نازل ہوگی۔ ایک بزرگ تھے جو اپنے نیک دوستوں سے مہمانوں کے لیے کچھ قرض لے لیا کرتے تھے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی مولانا روم میں اس قصےّ کو بیان فرمایا ہے کہ جب ان کا آخری وقت آیا تو لوگوں نے محسوس کر لیا کہ شاید بڑے میاں اب بچیں گے نہیں لہٰذا سب جمع ہوگئے کہ ہمارا قرضہ واپس کرو کیوں کہ ایسے آثار نظر آرہے ہیں کہ آپ قبرستان میں لیٹنے جارہے ہیں لہٰذا ہمارا قرضہ واپس کیجیے جو آپ نے مہمانوں کے لیے، خانقاہ کے