آثار محبت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
نے اپنی غزل جیب میں ڈال لی اور کہا کہ اب میں نہیں پڑھوں گا، آفتاب کے سامنے میں اپنا چراغ کیا پیش کروں، اللہ والوں کی شاعری کا کیا کہنا۔ میں آپ کو وہ شعر بھی سنا دیتا ہوں جو خواجہ صاحب نے پڑھا تھا جس پر جگر مراد آبادی نے جو شاہِ غزل یعنی غزل کا بادشاہ کہلاتا تھا اپنی غزل جیب میں ڈال لی اور کہا کہ اب میں کچھ نہیں پڑھوں گا۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ رحمۃ اللہ علیہ روزانہ چوبیس ہزار دفعہ اللہ اللہ کا ذکر کرنے والے، حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ، اپنے زمانہ کے ڈپٹی کلکٹر، انگریزی داں، کار اور چپڑاسی والے لیکن حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اپنے کو کیسا مٹایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ ان کو خلافت دی۔ اب ان کا وہ شعر سناتا ہوں جسے سن کر جگرؔ صاحب نے اپنی غزل جیب میں رکھ لی اور پڑھی ہی نہیں۔ وہ شعر تھا ؎گھٹا اٹھی ہے تو بھی کھول زلفِ عنبریں ساقی ترے ہوتے فلک سے کیوں ہو شرمندہ زمیں ساقی آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، اے ساقی! یعنی اے مدینہ والے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم! آپ بھی زمین پر اپنی زلفِ عنبریں کھول دیں تاکہ آپ کے ہوتے ہوئے زمین آسمان سے شرمندہ نہ ہو، آسمان کی کالی گھٹائیں آپ کی زلفِ عنبریں کے آگے کیا بیچتی ہیں۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ روضۂ مبارک کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کرتے ہیں ؎بحق آں کہ او جان جہاں است فدائے روضہ اش ہفت آسمان است اے خدا! اس ذاتِ گرامی یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ جو پوری کائنات کی جان ہیں، پورے عالم کی روح ہیں، جانِ جہاں ہے، جہاں کی روح ہیں، اگر یہ پیدا نہ ہوتے تو خدا زمین و آسمان کو پیدا نہ کرتا، اس مبارک ہستی کے صدقے میں جو روضۂ مبارک کے اندر آرام فرما ہیں اور جس کے روضہ پر ساتوں آسمان فدا ہورہے ہیں۔ 7؎ _____________________________________________ 7؎مناجاتِ مقبول،ص: 226