صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ حدیث سنائی تھی تو اس وقت ہم اور تم تھے، کوئی تیسرا نہیں تھالہٰذا اس حدیث کو دو بارہ سنا دو کہ وہ حدیث آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسے سنی تھی؟چناں چہ وہ حدیث سنی اور کھانا بھی نہیں کھایا، فوراً واپس ہو گئے، حضرت عقبہ ابن عامررضی اﷲعنہ ان کے پیچھے دوڑے تاکہ انہیں کچھ کھلائیں پلائیں لیکن وہ اُسی وقت واپس چلے گئے۔ دین اتنی محنت سے ملتا ہےورنہ کہاں مدینہ کہا ں مصر۔ آج آپ کے شہر میں اﷲ کی محبت کے بھرے ہوئے دل آ تے ہیں مگر آپ کو اپنے نوٹ کی گڈیوں سے فرصت نہیں، آپ کو کارخانوں سے فرصت نہیں، آپ کو اپنے بال بچوں سے فرصت نہیں، یہ ہے آپ کے دلوں میں اﷲ کی قیمت،یہ آپ نے اﷲوالوں کی قدر کی ہے، جب قبر میں جاؤ گے تب پتا چلے گا کہ اﷲ والوں کی صحبت کتنی کام آئی اور تمہاری نوٹوں کی گڈّیاں اور کاروبار اور بیوی بچے کتنا کام آئے،یہ سب تمہاری قبروں میں نہیں جائیں گے، دور سے ہی سلام کریں گےاور آپ قبروں میں لیٹ کر یہ شعر پڑ ھیں گے ؎
شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو! شکریہ
اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم
جب ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کو قبر میں اتارا جارہا تھا اس وقت صدر ضیا ء الحق بھی تھے، گورنر سجاد علی بھی تھے، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، علماء، محّد ثین اور طالبِ علم بھی تھے اور جس وقت مٹی دی گئی تو صدر ضیاء بھی رو رہےتھے، آخر میں ڈاکٹر صاحب اکیلے گئے، کسی کو ساتھ نہیں لے جا سکے، وہی حکیم الامّت کی صحبتیں،وہی اﷲاﷲ کا ذکر اور وہی عبادتیں اپنے ساتھ لے کر گئے۔ لہٰذا سوچ لو، پھر نہ کہناہمیں خبر نہ ہوئی۔
اگر اﷲتعالیٰ اختر کا آنا قبول فرمالےتو اختر آپ کا محتاج نہیں ہے،بعض نبی ایسے بھی گزرے ہیں جن پر ایک بھی آدمی ایمان نہیں لایا، لیکن اس سے ان کی نبوت کو نقصان پہنچا یا امّت کو نقصان پہنچا؟ اگر کوئی اللہ کی محبت لے کر آپ کودین پہنچاتا ہے اور آپ اس کی بات نہیں سنتے تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہے، اﷲ تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے اس کے لیے یہی کافی ہے ۔لیکن اس کو سوچ لو کہ ہمیں اللہ کو کیا جواب دینا ہے۔ بس یہ چند باتیں اﷲکے لیے اخلاص سے عرض کر دیں۔ اور ایک اعلان یہ کرتا ہوں کوئی صاحب مجھے ہدیہ دینے کا خیال بھی نہ لائے ۔