ہے وہاں پھٹے ہوئے گدّوں والے تھرڈ کلاس کے ڈبّے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ایک عالم فرماتے ہیں کہ کانٹاپھول کے ساتھ رہے گا تو باغ سے گیٹ آؤٹ نہیں کیا جائے گا، اس کو باغ سے باہر نہیں نکالا جائے گا۔ اس پر میرا اردو کا شعر ہے ؎
ہمیں احساس ہے تیرے چمن میں خار ہے اخترؔ
مگر خاروں کا پردہ دامنِ گل سے نہیں بہتر
خار کے معنیٰ کانٹاہیں،ہم جیسے خاروں کے عیوب کا پردہ ان ہی اﷲوالوں سے ہے، ہمیں امید ہے کہ ان اﷲوالوں کے تعلق سے ہم جیسے کانٹوں کا پردہ اﷲ نے گلاب کے پھو لوں سے رکھا ہے، ان پھو لوں سے ہمارا بھی پردہ ہوگا ان شاء اﷲ۔مولانا رومی رحمۃ اﷲعلیہ فرما تے ہیں کہ ایک کانٹا رو رہا تھا اور اﷲسے کہہ رہا تھا کہ اے خدا تو ستار العیوب ہے، مخلوق کا عیب چھپاتا ہے، تو نے مجھے کانٹا بنایا ہے، میں کہاں جاؤں ؟ کدھر منہ چھپاؤں؟ اﷲنے اس کانٹے کی آہ و فریاد سن کر اس کے اوپر پھول پیدا کر دیا اور فرمایا کہ تو اپنا منہ ان پھولوں کے دامن میں، ان کی پنکھڑیوں میں چھپا لے۔ اس پر میرا شعر ہے ؎
ہمیں احساس ہے تیرے چمن میں خار ہے اخترؔ
مگر خا روں کا پردہ دامنِ گل سے نہیں بہتر
اور ؎
چھپانا منہ کسی کانٹے کا دامن میں گلِ تر کے
تعجب کیا، چمن خالی نہیں ہے ایسے منظر سے
جس چمن میں جاؤ اس منظر کے ثبوت ملیں گے کہ جو کانٹے پھولوں کے دامن میں اپنا منہ چھپائے ہوئے ہیں اس باغ کا باغباں یعنی مالی ان کانٹوں کو کاٹ کر باغ سے نہیں نکالتا اور جو نرے خار ہی خار ہیں ایسی خار دار جھاڑیاں کاٹ کر باغ سے نکال دی جاتی ہیں۔
تو میں عرض کر رہا تھا کہ حکیم الامّت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اﷲ والوں کی نظرعنایت دشمنوں پر بھی ہے اور جانوروں پر بھی ہے، تو جو انسان ہیں اور ان سے محبت اور اخلاص کا تعلق رکھتے ہیں کیا وہ ان کو فرا موش کر دیں گے؟