دار فانی میں بالطف زندگی |
ہم نوٹ : |
|
تھے۔ اس لیے اﷲ والوں کی سختیوں کو سمجھنا چاہیے۔ علمائے دین سے پوچھو کہ نرمی کیا ہوتی ہے اور سختی کیا ہوتی ہے؟ مگر عام حالات میں شفقت ہی شفقت زیادہ پسند ہے۔ اس لیے کبھی کسی ولی اﷲ کو انتقام لیتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ اس لیے کسی سے انتقام نہ لو، معاف کر نے کی عادت ڈالو۔ دین سکھانے میں شانِ رحمت کو غالب رکھنے کی دلیل حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا: اَلرَّحۡمٰنُ ۙعَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ 24؎رحمٰن نے قرآن کی تعلیم دی۔ آیتِ پاک میں اَلْجَبَّارُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ نہیں ہے اَلْقَہَّارُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ نہیں ہے، ننانوے ناموں میں سے رحمٰن کو کیوں نازل کیا؟ معلوم ہوا کہ معلِّم اور مربّی کو شانِ رحمت رکھنی چاہیے۔ ایک بستی میں قاری صاحب نے ایک بچے کو ایسا گھونسا مارا کہ اس بچے کا وہیں ہارٹ فیل ہوگیا، نتیجہ کیا نکلا کہ اس بستی کے تمام لوگوں نے اپنے بچوں کو حفظ کرانا، قرآن پڑھانا چھوڑ دیا۔ کتنا بڑا نقصان پہنچا! اس لیے معلمین کو چاہیے، مربّیین کو چاہیے، اساتذہ کو چاہیے، دینی پیشواؤں کو چاہیے کہ شفقت اور شانِ رحمت اپنے اوپر غالب رکھیں۔ یہ بات شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے فرمائی ۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نرمی سے محروم رہا وہ ساری بھلائیوں سے محروم ہوگیا۔ ہم لوگوں کو اس کی بڑی ضرورت ہے۔بس دعا کیجیے کہ اﷲ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ جو باتیں سنائی گئی ہیں سب سے زیادہ محتاج آپ کے سامنے خطاب کرنے والا ہے، اﷲ تعالیٰ اختر کو اور آپ سب لوگوں کو بھی، تمام سامعینِ کرام کو بھی عمل کی توفیق نصیب فرمائے ، ہم سب کی اﷲ اصلاح فرما دے اور اپنا بنا لے، آمین۔ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ _____________________________________________ 24؎الرحمٰن:1۔2