دار فانی میں بالطف زندگی |
ہم نوٹ : |
|
کتابیں لکھ دیں تو بھی کم ہے۔ نافرمانی کبھی انسان کی راحت و چین اور صحت کی ضامن نہیں ہوسکتی، نافرمانی کبھی سکون کی ضمانت نہیں لے سکتی، صحتِ جسمانی، صحتِ روحانی، دنیاوی حیات ، آخرت کی حیات سب برباد ہیں۔ یہاں تک کہ کسی گناہ پر دو بندے راضی ہوجائیں تو دونوں ایک دوسرے کی نگاہوں میں ذلیل ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی ایک عذاب ہے کہ ایک دوسرے کی نظر میں بے وقعت ہوجاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس گناہ کے عذاب میں ان کو ذلیل کردیتے ہیں۔ کبھی ایک دوسرے کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھے گا ہمیشہ اس نظر سے دیکھے گا کہ یہ آدمی نالائق تھا، بے شرم تھا، اس کو اﷲ کا خوف نہیں تھا، وہ اس کو کہے گا یہ اس کو کہے گا۔ دو چور مل کر چوری کرتے ہیں تو ایک دوسرے کو ہمیشہ چور سمجھتے ہیں یا نہیں؟ دونوں ایک دوسرے کو چور کہتے ہیں یا ایک چور دوسرے چور کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس سے سلوک طے کرتا ہے؟ اور کہتا ہے کہ ہم کو ولی اﷲ بنا دو؟ لہٰذا سمجھ لو! دو چور چوری کرنے پر راضی ہیں مگر ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ہم دونوں ہی چوٹّے ہیں، کمینے ہیں، ذلیل وخوار ہیں اور جب دونوں کو ڈنڈے پڑتے ہیں تو ایک دوسرے کی نظر سے شرماتے ہیں کہ کاش! ہم ایک دوسرے کو نصیحت کرتے کہ چوری نہیں کرنی چاہیے ہم دونوں نے مل کر گناہ پر ایک دوسرے کی مدد کی،اس وقت ایک دوسرے کے سامنے نگاہیں جھکی ہوتی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی نظر میں ذلیل ہوتے ہیں۔ یہ ایک مضمون ہوا کہ دنیا سے دل نہ لگاؤ اور نافرمانی کو مفید مت سمجھو۔ نافرمانی پر خوش ہونا اللہ تعالیٰ کے دائرۂ دوستی سے خارج کرتا ہے کسی نافرمانی پر راضی بھی نہ ہونا چاہیے اور سن کر بھی خوش نہیں ہونا چاہیے، اﷲ کی نافرمانی کا تذکرہ بھی نہ سنو۔ کوئی آدمی اپنے کسی دوست کی بُرائی یا مخالفت پر خوشی ظاہر کرے یا مزہ لے اور اس دوست کو پتا چل جائے تو وہ دوست خوش ہوگایا دوستی سے خارج کر دے گا؟ اﷲ کی نافرمانی دیکھ کر بھی خوش نہیں ہونا چاہیے۔ میرے مرشد حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ ایک بزرگ اﷲ والے تھے کہیں جارہے تھے، کوئی گناہ کر رہاتھا اچانک اس پر نظر پڑ گئی، اتنا صدمہ ہوا کہ راستے سے لوٹ آئے، صدمے سے لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد پیشاب کیا تو اس میں خون آگیا۔ میں کہتا ہوں کتنا بڑا ایمان تھا