دار فانی میں بالطف زندگی |
ہم نوٹ : |
|
بہت غصہ آیا، میں نے ان سے کہا کہ پائلٹ کا بچہ کیا پائلٹ ہوسکتا ہے اگر ہوائی جہاز اُڑانا نہ سیکھے؟ ڈرائیور کا بچہ ڈرائیور ہوسکتا ہے جب تک کہ موٹر چلانا نہ سیکھے؟ اور ڈاکٹر کا بچہ جو پتنگ اُڑا رہا ہے اور سبزی منڈی میں آلو بیچ رہا ہے اور ڈاکٹر نہیں ہے تو کیا تم اپنے جسم کو علاج ومعالجے کے لیے اس کو دے سکتے ہو؟ تو ڈاکٹر کے بیٹے سے جو ڈاکٹر نہیں ہے علاج نہیں کراسکتے ہو مگر پیر کا بیٹا کتنا ہی نالائق ہو بیڑی پی رہا ہو، نماز نہ پڑھ رہا ہو، سینما دیکھ رہا ہو، وی سی آر دیکھ رہا ہو، اس کے ہاتھ پر بیعت ہو شرم آنی چاہیے۔ اُمید تو ہے کہ ان شاء اﷲ اثر ہوا ہوگا۔ (جامع عرض کرتا ہے کہ وعظ ’’اصلی پیری مریدی کیا ہے؟‘‘ اسی موقع پر صرف ان بدعتی پیر کے مرید کی اصلاح کے لیے ہوا۔ ڈھائی گھنٹے کا وعظ صرف ان صاحب ہی کے لیے تھا ، کمرے میں صرف دو تین سامعین تھے۔) میں یہ حدیثِ مبارک بیان کررہا تھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارا اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔ دعا کیجیے کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اچھے اخلاق نصیب فرما دے، اور آگے حدیث کا جز ہے کہ تم میں سب سے زیادہ مجھ کو بُرا لگنے والا اور قیامت کے دن سب سے زیادہ مجھ سے دور رہنے والا وہ شخص ہے جس کے اخلاق بُرے ہوں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کے اخلاق کی اصلاح فرمائے ۔ خلقِ خدا پر مہربانی کا انعامِ عظیم حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مخلوقِ خدا پر نرمی کرنے والا اور مہربانی کرنے والا بندہ اﷲ کو پسند ہے کیوں کہ بے شک اﷲ تعالیٰ اپنی مخلوق پر مہربان ہیں اور پسند کرتے ہیں نرمی کرنے والے کو۔ مخلوقِ خدا پر شفقت اور نرمی کرنے والے کو اﷲ تعالیٰ ایسی نعمتیں دیتے ہیں کہ سختی کرنے والے کو نہیں دیتے یعنی جو نرمی کرنے والے ہیں ان کو زیادہ اﷲ چاہتا ہے اور پیار کرتا ہے، انعامات دیتا ہے اور سخت مزاج آدمی کو وہ انعامات نہیں دیتا۔ لیکن دیکھو بھئی! جو اﷲ کے لیے سختیاں ہوتی ہیں وہ مستثنیٰ ہیں بلکہ وہاں سختی کرنا ہی مامور بہ ہے مثلاً اگر دین کے لیے جہاد ہورہا ہو تو وہاں دشمنانِ دین کے ساتھ نرمی نہیں ہے یا بعض مشایخ اصلاح کے لیے اپنے متعلقین پر سختی کرتے ہیں تو وہ سختی نہیں بلکہ لطف وکرم ہے کیوں کہ اس کا مقصد اصلاح ہے اور ان کو اﷲ والا بنانا ہے۔ اس کو سمجھو کہ بعض مواقع سختی کے ہیں۔ اس میں بڑی تفصیلات ہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیکھو کہ جہاں دین کا معاملہ آتا تھا کوئی رعایت نہیں فرماتے