دار فانی میں بالطف زندگی |
ہم نوٹ : |
|
کا ارادہ ہوا کہ گناہ کرو اس کے بعد اعضا نافرمانی میں ملوث ہوئے۔ تو گناہ کا ارادہ کرنا، گناہ کی اسکیم بنانا یہ گناہ کا ماضی ہے، گناہ کا پروگرام اس کا نام ہے اور جب اعضا گناہ میں ملوث ہوئے یہ گناہ کا حال ہے لیکن جیسے ہی جسم کے بادشاہ دل نے ارادہ کیا اﷲ کی نافرمانی کا اﷲ تعالیٰ فوراً اس دل پر اٹیک کردیتے ہیں جیسے بعض ملک اتنے مستعد ہیں کہ کوئی ملک ان پر اگر حملہ کرنا چاہتا ہے تو فوراً اس کے ریڈار پر حملہ کر کے اس ہوائی جہاز اور اس کی ایٹمی تنصیبات کو ایک دم جلا کر خاک کر دیتے ہیں۔ اسی طرح جیسے ہی گناہ کا ارادہ کیا تو اﷲ تعالیٰ دل کو فوراً پریشان کر دیتے ہیں، اسی وقت سے فوراً زندگی تلخ ہوجاتی ہے اور دل میں بے چینی داخل ہوجاتی ہے اگرچہ گناہوں کی مسلسل عادت اور گناہوں پر اصرار سے اس کو اس بے چینی کا احساس نہ ہو لیکن ہر گناہ گار کا دل اندر سے ہر وقت بے چین اور بے سکون رہتا ہے، ہاں! وہ بندے جو اﷲ تعالیٰ کے خاص ہیں، جن کو اﷲ کا پیار نصیب ہے، اﷲ کی رحمت نصیب ہے، جن کو اﷲ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ میرا بندہ خراب نہ ہو، برباد نہ ہو ان کو گناہ راس نہیں آنے دیتے اور اہلِ کفر جن کو ڈھیل دی ہوئی ہے یا وہ اہلِ فسق جو اﷲ تعالیٰ کی حفاظت میں نہیں ہیں تو ان کو گناہ راس آجاتا ہے، گناہ ہضم ہوجاتا ہے،یہ گناہ کا ہضم ہونا اور گناہ سے نفرت اور پریشانی پیدا نہ ہونا بڑی خطرناک علامت ہے۔ زہر اگر ہضم ہوجائے تو ہلاک کر دیتا ہے اور دل کا پریشان ہونا یہ علامت ہے کہ اس دل پر اﷲ کی رحمت ہے، تو گناہ کا ارادہ کرنا یہ گناہ کا ماضی ہے اور اس کے بعد جب گناہ کا ارتکاب کیا یہ حال ہے، جب بشریت غالب ہوگئی، نفس دشمن غالب ہوگیا تو گناہ کے زمانۂ حال میں بھی انسان کو سکون نہیں ملتا۔ اﷲ کی نافرمانی سے ماضی بھی برباد ہوا اور حال بھی تباہ ہوا کیوں کہ حالتِ گناہ میں بھی دل پریشان رہتا ہے کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے اور اس کے بعد کا زمانہ گناہ کا مستقبل ہے، گناہ کے بعد گناہ گار ہر وقت پریشان رہتا ہے کہ کہیں میرا راز فاش نہ ہوجائے، جس کے ساتھ گناہ کیا ہے وہ کہیں کہہ نہ دے اور اس کے اعزا انتقام لینے نہ آجائیں اور قتل وخون تک نوبت نہ آجائے، چناں چہ ہر گناہ گار کی شکل وصورت دیکھ لیجیے کہ کیا حالت ہے جیسے چہرے پر جھاڑو پڑگئی ہو۔ غرض گناہ گار کا ماضی بھی پریشان، حال بھی بے سکون اور بے چین اور مستقبل میں بھی بے چینی، خوف اور گھبراہٹ یہاں تک کہ دل ودماغ کمزور اور صحت خراب ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ گناہ گار آیندہ مستقبل میں بھی ایسے ایسے حالات سے دوچار ہوتا ہے کہ جس کی تفصیل کے لیے داستان چاہیے، اگر ہزاروں