نسبت مع اللہ کے آثار |
ہم نوٹ : |
حرام خواہشات کے انہدام سے نسبت مع اﷲ کی تعمیر ہوتی ہے لیکن دوستو! یہ بتائیے کہ اگر آپ کا ایک ٹوٹا ہوا جھونپڑا ہے جس میں لیٹرین بھی نہیں ہے، گندگی سے بھرا ہوا ہے اور کوئی کریم اور مہربان بادشاہ کہتا ہے کہ اگر تم اپنے اس مکان کو ڈھا دو تو ہم تمہیں ایک نئی شاندار عمارت بنا کردیں گے یاسعودی حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ ہم مسجدِ نبوی کے قریب کے مکانات ڈھانا چاہتے ہیں اور مسجدِ نبوی کی توسیع کرنا چاہتے ہیں اور اگر تمہارا مکان ایک لاکھ کا ہے تو ہم تم کو پچاس لاکھ دیں گے تو آپ لوگ تمنا کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں کہ مسجدِ نبوی کی توسیع کے لیے ہمارا مکان حکومت کی نظر میں آجائے تاکہ ایک لاکھ کے پچاس لاکھ ملیں تو اللہ تعالیٰ نے ہماری خواہشات کے مکانوں کو گرانے کا جو حکم دیا ہے کہ جو بُری بُری خواہشات اور گندے گندے تقاضے ہیں مثلاً عورتوں کو دیکھنے کے،لڑکوں کو دیکھنے کے، عشقِ مجازی کے،جھوٹ بولنے کے،بے جا غصہ کے،ان خبیث مادّوں کو اگر تم گرا دو یعنی دل میں بُری خواہشات کے مکان کو ڈھا دو تو اس سے کچھ دن کے لیے تو تمہیں ایسا محسوس ہوگا کہ دل ویران ہوگیا لیکن میں اس ویرانی میں اپنی محبت کا اور نسبت مع اللہ کا خزانہ رکھ دوں گا ؎ یہ صحنِ چمن یہ لالہ و گل ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں تخریبِ جنوں کے پردے میں تعمیر کے ساماں ہوتے ہیں مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اگر اللہ کی محبت میں اپنی خواہشات کو برباد کردو گے تو ؎ گنج در ویرانی است اے میر من اے دوستو! نسبت مع اللہ کا خزانہ دلِ ویران کو عطا ہوتا ہے، ذرا سوچو کہ گندی خواہشات کو اللہ کے تعلق سے کیا نسبت ہے، نسبت مع اللہ کے سامنے ان خواہشات کی کیا حقیقت ہے، ارے جیتے جی زندگی میں لوگ ان خواہشات سے دستبردار ہوجاتے ہیں، ریٹائر ہوجاتے ہیں، زیادہ بڈھے ہونے کے بعد آنکھیں دیکھ نہیں پاتیں، آنکھوں پر اتنے گہرے چشمے لگتے ہیں کہ آنکھیں ہیں مگر دیکھ نہیں سکتا۔ پیر ہیں مگر لنگڑا کر چل رہا ہے، کان ہیں سنائی نہیں دیتا، جب بڑھاپا آجاتا ہے تو جیتے جی حواسِ خمسہ باطل ہوجاتے ہیں اور پھر مرنے کے بعد روح نکلتے ہی