نسبت مع اللہ کے آثار |
ہم نوٹ : |
|
لے آرزو کا نام تو دل کو نکال دوں مومنؔ نہیں جو ربط رکھیں آرزو سے ہم نسبت مع اﷲ کے حصول کا واحد راستہ اہل اﷲ کی محبت ہےآپ بھی نفس سے کہہ دیں کہ اے نفس! اگر تو اللہ کی نافرمانی سے باز نہیں آتا تو میں تیری سرکوبی کروں گا، تجھے قید کردوں گا، مگر یہ ہمت و قوّت آئے گی کیسے ؟ گناہوں سے بچنے کے لیے جان دینے کی ہمت کیسے آئے گی؟ اور جان سے زیادہ، اہل وعیال سے زیادہ اور شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہمارے دل میں کیسے آئے گی جبکہ یہ محبت مطلوب بھی ہے۔ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اللہ سے کتنی محبت مانگی ہے؟ بخاری شریف کی حدیث ہے: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ وَاَھْلِیْ وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ 12؎ اے اللہ! مجھے اپنی اتنی محبت دے دیں کہ آپ مجھے میری جان سے زیادہ پیارے ہوں، اہل وعیال سے زیادہ پیارے ہوں اور پیاس کی شدت میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ پیارے ہوں۔ مگر یہ محبت ملے گی کیسے؟ اس کا نسخہ بھی اسی حدیث کے پہلے جز میں موجود ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُّبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ 13؎ اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور تیرے عاشقوں کی محبت مانگتا ہوں اور اس عمل کی محبت مانگتا ہوں جو آپ کی محبت کا باعث ہو۔ ظالم ہے وہ ملّا جو اہل اللہ سے مستغنی ہوتا ہے۔ جو مولوی خدا کے عاشقوں سے اِعراض کرتاہے، اِستغنا کرتاہے وہ نبی کی دعا کی رُو سے اپنا فیصلہ کرلے کہ نبیوں کا سردار خدا سے خدا کے عاشقوں کی محبت مانگ رہا ہے اور یہ ظالم شمس بازغہ اور صدرا پڑھا کر اپنے آپ کو اہل اﷲ سے مستغنی سمجھ رہا ہے۔ ایسے ملّا کے لیے میرا شعر ہے ؎ کہاں پاؤ گے صِدرا بازغہ میں نہاں جو غم ہے دل کے حاشیہ میں _____________________________________________ 12؎جامع الترمذی: 2/ 178، باب من ابواب جامع الدعوات، ایج ایم سعید