نسبت مع اللہ کے آثار |
ہم نوٹ : |
|
اور اللہ کی محبت کی یہ دولت کیسے ملتی ہے ؎ یہ ملتی ہے خدا کے عاشقوں سے دعاؤں سے اور ان کی صحبتوں سے اللہ تعالیٰ کے نبی نے اﷲ والوں کی محبت درمیان میں مانگی ہے، اللہ کی محبت اور اعمالِ صالحہ کی محبت اِن دونوں محبتوں کے درمیان میں یہ جملہ رکھ دیا کہ اے اﷲ! میں آپ سے آپ کے عاشقوں کی محبت مانگتا ہوں، درمیان کا یہ جملہ دونوں محبتوں کے لیے رابطے کا کام دے رہا ہے یعنی اس جملے کا رابطہ اﷲ کی محبت سے بھی ہے اور ان اعمالِ صالحہ کی محبت سے بھی ہے جو اﷲ کی محبت کا سبب ہیں چناں چہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ روئے زمین پر اللہ تک پہنچنے کا اور اللہ تعالیٰ کی محبت سیکھنے کا راستہ اللہ کے عاشقوں سے محبت کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے،اﷲ والوں کی محبت سے اللہ بھی ملے گا اور اعمالِ صالحہ بھی ملیں گے، اللہ والوں کی محبت سے عشقِ خدابھی ملے گا اور عشقِ اعمال بھی ملے گا اور جب یہ چیزیں جمع ہوجائیں گی تو ان شاء اللہ تعالیٰ اﷲ تعالیٰ جان سے زیادہ عزیز ہوجائیں گے۔ اہل اﷲ کو آزمانا نادانی ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں ان کا امتحان کرکے دیکھ لو! ان کو ثابت قدم پاؤگے، یہ امتحان میرے ایک نادان دوست نے کیا تھا، وہ اس وقت میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سےبیعت نہیں ہوا تھا، سیتا پور میں اس شخص کا باپ آنکھ بنوانے گیا، حضرت شاہ عبد الغنی صاحب سے اس کے باپ کی دوستی تھی، اس نے کہا حضرت! سیتاپور میں آپ کے مرید بھی ہیں، اگر آپ تکلیف فرمادیں تو کھانے پینے کا انتظام آپ کے مریدوں کے یہاں ہوجائے گا، اللہ والے کریم ہوتے ہیں لہٰذا حضرت کی برکت سے اس کا یہ مسئلہ حل ہوگیا، اس کے بعد اس نادان نے بتایا کہ میں نے شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا امتحان لیا۔ یہ شخص مرید ہونے سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں نظر کا سخت بیمار تھا، جس بازار میں یہ ملازم تھا اس سے آدھ میل کی دوری پر ریلوے اسٹیشن تھا، اس اسٹیشن پر مختلف اوقات میں چار ریلیں آتی تھیں، جب ریل کی آواز آتی یہ دوکان چھوڑ کر بھاگتا اور زنانہ ڈبہ میں عورتوں کو گھورتا تھا۔ آدمی جیسا خود ہوتا