نسبت مع اللہ کے آثار |
ہم نوٹ : |
|
لہٰذا جس کو فلاح یعنی دونوں جہاں کی کامیابی چاہیے اس کو تزکیۂ نفس یعنی نفس کی اصلاح کرانا ضروری ہے اور اگر اصلاح نہیں کرائی اور اللہ والوں کی نظروں سے بچ کرحرام مزے اُڑا لیے تو بھی اللہ تعالیٰ کی نظر سے تو چوری نہیں کرسکتے، اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ ہیں، جو لوگ اپنے نفس کی شرارت اور معصیت کی لذت کے عاشق ہیں اور سوچتے ہیں کہ چلو رام رام بھی کرتے رہو اوراللہ اللہ بھی کرتے رہو، گناہ بھی نہ چھوڑو اور ذکر بھی کرتے رہو، سالک وصوفی بھی بنے رہو اور چھپ چھپ کر گناہ کا مزہ بھی اینٹھتے رہو۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا نامراد ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے اخلاقِ رذیلہ کو چھپایا اور اصلاح کی فکر نہیں کی، لہٰذا کیوں نامرادی کے راستے پر جاتے ہو؟ دیکھو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے وہ کامیابی کے راستے بتا رہا ہے، تو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے کامیابی کے راستے کو چھوڑ کر اپنے نفس دشمن کی بات مت مانو۔ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایسے موقع پر یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎ بقول دشمن پیمانِ دوست بشکستی ببیں کہ از کہ بُریدی و با کہ پیوستی دشمن یعنی نفس وشیطان کے کہنے سے اللہ تعالیٰ کے عہدِ وفا اور پیمانِ دوستی کو توڑتے ہو،یہ تو دیکھو کہ کس سے توڑ رہے ہو اور کس سے جوڑ رہے ہو۔ ہم سب نے عالمِ ارواح میں اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ کے جواب میں قَالُوۡا بَلٰی کہا تھا کہ نہیں ؎ دِل ازل سے تھا کوئی آج کا شیدائی ہے تھی جو اک چوٹ پرانی وہ اُبھرآئی ہے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ اﷲ تعالیٰ سے محبت کا عہد ہے عالمِ ازل میں اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ فرما کر ہم سب کی روحوں میں اللہ نے اپنی محبت کی چوٹ لگا دی تھی، اپنی ربوبیت کی تجلی کا مشاہدہ کرا کر ہم سے اقرار لیا تھا، ہم نے قَالُوْا بَلٰی 9؎ _____________________________________________ 9؎الاعراف:172