نسبت مع اللہ کے آثار |
ہم نوٹ : |
|
کہا تھا کہ بے شک! آپ ہی ہمارے رب ہیں اور یہاں اس عالم میں آکر بھی وہ چوٹ موجود ہے مگر اس چوٹ کو اُبھارنے کے لیے ایک مخصوص ہوا چاہیے جیسے پہلوان جب اَکھاڑے میں چوٹ کھاتا ہے تو ہر ہوا اس چوٹ کو نہیں اُبھار سکتی، پورب یعنی مشرق سے جو ہوا چلتی ہے جسے پوربی ہوا کہتے ہیں اس سے پرانی چوٹیں اُبھر آتی ہیں پھر پہلوان کہتا ہے اُف! اکھاڑے میں استاد نے گردن پر جو گھونسہ مارا تھا وہ آج درد کررہا ہے، آج پوربی ہوا چل رہی ہے، اسی طرح اللہ والوں کے قرب کی ہوائیں، اللہ والوں کی آغوشِ محبت کی ہوائیں ہماری روح کی اُس چوٹ کو اُبھار دیتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے عالمِ ارواح میں لگائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صحبتِ اہل اﷲ سے آدمی کے دل میں نور اور اللہ کی محبت کا درد بڑھتا جاتا ہے اور دنیا کی محبت گھٹتی جاتی ہے، دنیا اسے مردار نظر آنے لگتی ہے، دنیا کی صحیح حقیقت کھلنے لگتی ہے، آنکھوں کا پانی اور موتیا دور ہوتا جاتا ہے اور آنکھیں بنتی جاتی ہیں، آدمی روز بروز دِل کی بصیرت سے دیکھتا ہے کہ میں پہلے کیا تھا اور اب کہاں سے کہاں پہنچ رہا ہوں ؎ وہ ان کا رفتہ رفتہ بندۂ بے دام ہوتا ہے محبت کے اسیروں کا یہی انجام ہوتاہے صحبتِ اہل اﷲ روح کی کلیوں کے لیے نسیمِ سحری ہے تو میرے دوستو! اللہ والوں کی صحبت سے اﷲ تعالیٰ کی محبت کی پرانی چوٹ اُبھر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اعظم گڑھ کی شبلی منزل میں تقریر کا شرف بخشا۔ اُس وقت پرنسپل سٹی کالج اور سارے پروفیسر موجود تھے تو میں نے سوچا کہ شبلی کالج کے بانی علامہ شبلی نعمانی ہی کا شعر پیش کردوں۔لہٰذا میں نے کہا کہ آپ لوگ اس کالج کے پرنسپل اور پروفیسر ہیں، آپ کے کالج کے بانی علامہ شبلی نعمانی جو علامہ سیدسلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد تھے انہوں نے ایک شعر کہا تھا ؎ بوئے گل سے یہ نسیمِ سحری کہتی ہے حجرۂ غنچہ میں کیا کرتی ہے آ سیر کو چل یعنی کلیوں میں جو خوشبو پنہاں ہے تو نسیمِ سحری یعنی صبح کی ہوا ان کلیوں سے کہتی ہے کہ