نسبت مع اللہ کے آثار |
ہم نوٹ : |
|
حقیقت میں تو مےخانہ جبھی مے خانہ ہوتا ہے تیرے دستِ کرم میں جب کبھی پیمانہ ہوتا ہے ارواحِ عارفین کی مستی و سرشاری جب اللہ والوں کے ہاتھ سے پیمانہ مل رہا ہو، خدا کے عاشق جام و مینا لُٹا رہے ہوں تو اﷲ کی محبت کا مے خانہ تو اسی وقت گرم ہوتا ہے اور بقول مولانا رومی ؎ بادہ افراواں و خم و جامِ مے بوسہ بے اندازہ و لب ناپدید اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کو اپنی محبت کے بے شمار بادہ و خم و جام پلاتا ہے، خم کے خم پلاتا ہے،جامِ مے دیتا ہے اور لبِ نادیدہ سے بے اندازہ و غیر محدود بوسے لیتا ہے، خدا کے ہونٹ نظر تو نہیں آتے لیکن اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کے قلب و جان محسوس کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بے شمار بوسے لے رہے ہیں، بے شمار پیار لے رہے ہیں، ہم نے مرنے، گلنے سڑنے، ہگنے موتنے والی لاشوں سے نظر بچائی، مقاعد الرجال اور فروج النساء کو چھوڑا، کوئی مرکزِ بول ہے، کوئی مرکزِ براز ہے، یہ سب ہگنے موتنے والے ہی تو ہیں، جب ان سے نظر بچائی اور چند دن اللہ اللہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے قلب و جاں کو کیا انعام عطا فرمایا؟ اللہ والے جو محسوس کرتے ہیں وہ ہم اور آپ نہیں سمجھ سکتے۔ کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جلال الدین رومی نے غلط بیانی کی، میں کہتا ہوں کہ یہ بالکل حقیقت ہے یعنی اللہ کے عاشقین اور عارفین اس بادۂ فراواں کو محسوس کرتے ہیں، خدائے تعالیٰ اپنے عاشقوں کو محبت کی بادۂ فراواں و خم و جام ِ مے عطا کرتا ہے، بادۂ افراواں پلاتا ہے۔ دوستو! بس چند دن محنت کرلوپھر آپ کے دل و جان محسوس کریں گے کہ ڈھالکا نگر کی اس مسجد میں اور رمضان کے اس مبارک مہینے میں اختر کیا کہہ گیا تھا، ان شاء اﷲ اس کے بعد آپ کے قلب وجان وہی محسوس کریں گے جو مولانا رومی نے فرمایا ہے ؎ بادہ افراواں و خم و جامِ مے بوسہ بے اندازہ و لب ناپدید