نسبت مع اللہ کے آثار |
ہم نوٹ : |
|
کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آنکھ بند کرنے سے چوں کہ شکل سونے والوں کی بن جاتی ہے اور شکل بنانے سے حقیقت بھی اُترسکتی ہے یعنی آپ حقیقت میں بھی سو سکتے ہیں لہٰذا بیان کے دوران آنکھیں کھلی رکھیں) تو جن اولیاء اللہ نے مجاہدے کیے ہیں اور گناہ چھوڑے ہیں اور صاحبِ نسبت اور صاحبِ تقویٰ ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے خزانے سے مالا مال ہوئے ہیں، بادشاہوں نے ان کی جوتیاں اٹھائی ہیں اور گناہوں کو چھوڑ کر انہوں نے اپنے قلب میں اتنی بڑی دولت محسوس کی کہ وہ اﷲتعالیٰ کا بے حد شکر ادا کرتے ہیں کہ سور اور کتے کی زندگی سے آپ نے اولیاء اللہ اور اپنے دوستوں کی پاکیزہ حیات عطا فرمائی۔ خواہشات کے ویرانے میں خزانۂ تقویٰ کی مثال حضرت جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے سلوک کو ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ خواہشات کو ویران کرنا ایسا ہی ہے جیسے ویرانے میں لوگ خزانہ دفن کرتے ہیں، تو اﷲتعالیٰ نے خواہشات پیدا کیں، مادّۂ فجور پیدا کیا پھر حکم دیا کہ اس پر عمل نہ کرو یعنی اس سے رکنے کا حکم دیا اور اس طرح خواہشات کو ویران کرکے اس میں تقویٰ کا خزانہ رکھ دیا۔ فجور اور نافرمانی کے حرام تقاضوں کو روکنے ہی سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ حرام خواہشات سے بچنے کا غم اُٹھانا ہی تقویٰ ہے اب آپ تقویٰ کی تعریف سن لیجیے، تقوی کی تعریف ہے: کَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْھَوٰی جو اپنے ھَوٰی کو روکے، اور ھَوٰی کسے کہتے ہیں؟ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ یہ ھَوٰی یَھْوِیْ سے ہے یعنی گرجانا۔3؎ تو جو نفس کی اتباع کرتا ہے وہ نفس کے غار میں گر جاتا ہے، ھَوٰی صاحبِ ھَوٰی کو ذلت کے غار میں گرا دیتی ہے، لیکن جو شخص اپنی خواہشات کو روک لیتا ہے _____________________________________________ 3؎روح المعانی :36/30 ، النٰزعٰت(40)،داراحیاءالتراث، بیروت