نسبت مع اللہ کے آثار |
ہم نوٹ : |
|
قصد کردستند ایں گِل پارہا کہ بپو شانند خورشیدِ ترا یہ مٹی کے ڈھیلے، نفس کے غلام، انہوں نے ایک خطر ناک ارادہ کیا ہوا ہے کہ یہ تیرے آفتابِ نسبت مع اللہ کو حسد کی مٹی سے چھپادیں، ان مٹی کے ڈھیلوں کا یہ قصد بہت مذموم قصد ہے۔ آفتابِ نسبت مع اﷲ کو حسد کی خاک نہیں چھپا سکتی میں نے حاسدین کے لیے ایک شعر کہا ہے جو ایک زمانے میں مجھے بہت ستاتے تھے۔ دوستو! جنہوں نے مجاہدے کیے ہیں اُن مجاہدوں سے اُن کے دل میں خون کے دریا بہہ رہے ہیں، دنیاکے حاسدین حسد کی خاک اُڑا کر اس دریائے خون کو چھپا نہیں سکتے ؎ ایک قطرہ وہ اگر ہوتا تو چھپ بھی جاتا کس طرح خاک چھپائے گی لہو کا دریا معارف مثنوی کے آغاز میں میرے تین اشعار ہیں کہ میں نے مثنوی کی شرح کیوں لکھی؟ میں نے اپنی کتاب کانام کتاب دردِ دل رکھا ہے۔ معارف مثنوی پر میرا فارسی کا شعر ہے ؎ ایں کتابِ دردِ دل اے دوستاں کردہ ام تالیف بہرِ عاشقاں مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ عارفاں زا نند ہر دم آمنوں کہ گزر کردند از دریائے خوں عارفین اللہ والے ہر وقت سکھ چین اور امن میں کیوں ہیں؟ اس لیے کہ انہوں نے دریائے خون سے عبور کیا ہے، نفس کی خواہشات کا خون کیا ہے۔ گناہ کے تقاضوں سے گھبرانا نہیں چاہیے اپنے نفس کی اصلاح اور تزکیہ میں، گناہوں کے چھوڑنے میں اور اللہ کے راستے میں