نسبت مع اللہ کے آثار |
ہم نوٹ : |
|
دنیا بھر کے حسینوں کولے آؤ اور مردے سے کہو کہ ذرا کفن سے جھانک کر دیکھو،یہ وہی تو ہیں جن کو تم دیکھتے تھے، یہ وہی اَمرد ہیں جن کے لیے تم خبیث حرکتوں میں مبتلا تھے، جن کو دیکھ کر تم پاگل ہوجاتے تھے، جن کی وجہ سے تم بایزید بسطامی کی صورت میں ننگِ یزید حرکتیں کرتے تھے، اب دیکھو نا! لیکن مردہ بزبانِ حال اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر پڑھتا ہے ؎ قضا کے سامنے بے کار ہوتے ہیں حواس اکبرؔ کھلی ہوتی ہیں گو آنکھیں مگر بینا نہیں ہوتیں جب موت آجاتی ہے تو مردے کی آنکھ کھول کر بیوی کہے کہ ہم کو ایک نظر دیکھ لو! تو مردے کی آنکھ کھلی ہوتی ہے مگر کچھ نظر نہیں آتا، بچے کہتے ہیں کہ ابا جان مجھے دیکھ لو! مگر ابا جان اب نہیں دیکھ سکتے، منشی سیٹھ صاحب سے کہتا ہے کہ کاروبار میں بہت نفع ہوا ہے مگر سیٹھ صاحب اب نوٹوں کو نہیں دیکھ سکتا، اس کے لیے شامی کباب، کپڑے، گھڑی سب بے کار ہے۔ ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ مرکر ساری خواہشات کو چھوڑنا پڑے گا لیکن اب اس پر کوئی اجر نہیں ہے کیوں کہ یہ مجبوری کا چھوڑنا ہے۔لہٰذا جیتے جی ہم زندگی خدا پر فدا کردیں، جیتے جی بُری خواہشات کو ترک کردیں اور اس کے لیے اپنے اختیار کو استعمال کریں کیوں کہ گناہ چھوڑنا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں گناہ چھوڑنے کا اختیار نہیں ہے وہ غلط کہتے ہیں۔ اختیار تو ہے مگر گناہ چھوڑنے کی تکلیف برداشت کرنا نہیں چاہتے، اگر تمہیں صحابہ جیسی روح عطا ہوجائے، تمہارے دِلوں میں شہداء کی روح داخل ہوجائے تو جان تک دینے کے لیے تیار ہوجاؤ گے، اور کیا نظر بچانے سے آپ کی روح نکل جائے گی؟ مولاناجلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں خدائے تعالیٰ سالکین کی صرف آدھی جان لیتے ہیں مگر آدھی جان لے کر اس پر صدہا جانیں برسادیتے ہیں ؎ نیم جاں بستاند و صد جاں دہد اُنچہ در و ہمت نیاید آں دہد (جامع عرض کرتا ہے کہ بیان کے دوران بعض لوگوں نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں تو حضرت والا نے فرمایا کہ جو دورانِ بیان آنکھ بند کرکے دل کو حاضر کرتے ہیں یا یکسوئی حاصل