نسبت مع اللہ کے آثار |
ہم نوٹ : |
|
کرتا کہ ایک قدم اندر رکھے ایک قدم باہر، مہمان کیسے آتا ہے؟ اچانک آتا ہے۔ اسی لیے خواجہ صاحب نے نسبت کے القا پر یہ شعر فرمایا ؎ یہ کون آیا کہ دھیمی پڑ گئی لو شمعِ محفل کی پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی عطائے نسبت کی علامات مع تمثیلات اور اس عطائے نسبت کی علامت کیا ہے؟ اُس دن ساری کائنات سورج و چاند، بادشاہ اور سلاطین کے تخت و تاج، اہلِ دولت کی دولت نگاہوں سے گر جاتی ہے، یہ علامت خواجہ صاحب اپنے شعر میں پیش کرتے ہیں ؎ یہ کون آیا کہ دھیمی پڑ گئی لو شمعِ محفل کی پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی جس کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی ذات متجلی ہوتی ہے اس کی نگاہوں میں پوری کائنات کے چراغ بجھ جاتے ہیں، دھیمے پڑجاتے ہیں،جب سورج نکلتا ہے تو کیا ستارے نظر آتے ہیں؟ اللہ کا سورج جب دل میں نکلے گا تو دنیا کے چاند سورج پھیکے نہ پڑ جائیں گے؟ خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے وہ ہم کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا ایک مرتبہ خواجہ صاحب نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ جب کسی کو نسبت عطا ہوتی ہے تو کیا اس کو پتا چل جاتا ہے کہ آج اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اپنی نسبت عطا فرمادی؟ سوال کرنے والے خواجہ صاحب تھے اور جواب دینے والے حکیم الامت۔ حضرت نے فرمایا کہ خواجہ صاحب! جب آپ بالغ ہوئے تھے تو کیا آپ نے دوستوں سے پوچھا تھا کہ یارو! بتاؤ میں بالغ ہوا یا نہیں یا خود پتا چل گیا تھا۔ پس حضرت خواجہ صاحب مسکرائے اور سر کو جھکالیا اور اسی بات میں سب کچھ پالیا۔ حضرت حکیم الامت فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جس کو نسبت عطا فرماتے ہیں تو