نسبت مع اللہ کے آثار |
ہم نوٹ : |
|
ہے اﷲ والوں کو بھی ویسا ہی سمجھتا ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے حضرت کا امتحان لیا، اس وقت وہ حضرت سے بیعت نہیں ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ حضرت میرے والد صاحب کی عیادت کے لیے سیتاپور آئے اور سڑک پر جارہے تھے کہ سامنے سے ایک بہت خوبصورت لڑکی آئی۔ اس نے کہا کہ آج دیکھتا ہوں کہ مولانا اس کو دیکھتے ہیں یا نہیں۔ جیسے ہی وہ لڑکی سامنے سے گزری حضرت کو ابکائی آگئی اور چہرۂ مبارک دوسری طرف کرکے بلغم تھوک دیا ۔ تب اس شخص کی آنکھیں کھلیں اور اپنی حماقت پر بہت نادم ہوا کہ اﷲ والوں کو اپنے اوپر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ ایک چور پھانسی پر چڑھ رہا تھا تو حضرت جنید بغدادی نے اس کا پیر چوم لیا۔ مریدوں نے کہا کہ آپ نے ایسے نالائق کا پیر کیوں چوما؟ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کو نہیں چوما بلکہ اس کی استقامت کو چوما ہے کہ یہ ظالم کتنی استقامت اور ہمت والا تھا کہ چوری کی سزا میں ڈنڈے کھاتے کھاتے پھانسی تک پہنچ گیا،جان دے دی مگر چوری کرنا نہیں چھوڑا، ہم لوگ نیک کام میں جان نہیں دیتے اور یہ شر پر اتنا جماہوا تھا کہ جان تک دے دی، ہمیں اﷲ نیکی پر ایسی استقامت دے۔ توبہ سے رِند بادہ نوش بھی ولی اﷲ ہوجاتا ہے تو جناب وہ نظر باز نظر بازی کرنے چار مرتبہ ریلوے اسٹیشن جاتا تھا، پھر وہ حضرت سے بیعت ہوا اور اتنا عبادت گزار ہے کہ اس سے کرامتیں ظاہر ہورہی ہیں۔ اس لیے کسی کو حقیر مت سمجھو۔ بعض اوقات یہ پتنگ باز، یہ نظر باز جب اللہ کی طرف آتے ہیں تو بہت بڑے ولی اللہ بن جاتے ہیں۔ خواجہ صاحب نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے ؎ نیا توبہ شکن جب داخلِ مے خانہ ہوتا ہے نہ پوچھو رنگ پر پھر کس قدر مے خانہ ہوتا ہے خواجہ صاحب نے تھانہ بھون کو، تھانہ بھون کے رِندوں کو، تھانہ بھون کے مستوں کو اور شرابِ محبتِ الٰہیہ کے عاشقوں کو اس طرح سے تعبیر کیا ؎ میں اب بادہ نوشوں میں جاکر رہوں گا میں جینے کا اب کچھ مزہ چاہتا ہوں