نسبت مع اللہ کے آثار |
ہم نوٹ : |
|
فرمایا کہ ان کے دل میں دھیان قائم ہے کہ میرے سر پر گھڑا ہے، اگر یہ دھیان ختم ہوجائے تو گھڑا زمین پر آجائے لہٰذا کتنا ہی ہنسیں، کتنی ہی گفتگو کریں لیکن دھیان لگا ہوا ہے کہ میرے سر پر گھڑا ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے جو اولیاء ہوتے ہیں ان کو جس حالت میں دیکھو چاہے ہنس رہے ہوں یا رو رہے ہوں ہر وقت ان کو اللہ کا دھیان قائم ہے، ہنسنے میں بھی ان کے دل کا دھیان اللہ کی طرف رہتاہے ۔ مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے یہ روایت فرمائی، میرے اور ان کے بیچ میں کوئی اور راوی نہیں ہے، فرمایا کہ جب میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد تھانہ بھون حاضر ہوا تو خواجہ صاحب مولوی شبیر علی صاحب کے دفتر کے دروازے کی چوکھٹ پکڑے رو رہے تھے، مجھ کو دیکھ کر اور روئے اور پھر یہ شعر پڑھا ؎ چمن کا رنگ گو تو نے سراسر اے خزاں بدلا نہ ہم نے شاخِ گل چھوڑی نہ ہم نے آشیاں بدلا مطلب یہ کہ ہم ایسے عاشق ہیں کہ ہم نے اپنا آشیاں نہیں چھوڑا، آج بھی اس کی چوکھٹ پکڑے کھڑے ہیں، چمن کا رنگ تو بدل گیا، حکیم الامت دنیا سے چلے گئے لیکن ہم اس آشیاں کو نہیں چھوڑ سکتے، پھول تو چلا گیا مگر شاخِ گل تو ہاتھ میں ہے، خانقاہ تھانہ بھون تو ہاتھ میں ہے۔ اسی لیے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس خانقاہ کو بنوا دے، جس طرح میرے شیخ شاہ ابرار الحق صاحب کی تمنا اور دعا سے اﷲ تعالیٰ نے اپنے کرم سے کراچی کی خانقاہ بنوادی ہے۔ یہ آپ کی خانقاہ ہے، اختر کی نہیں ہے، یہ سارے سالکین کے لیے اللہ اللہ کرنے کی جگہ ہے جیسے آپ لوگ یہاں اللہ اللہ کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کی تعمیر بھی کرادے تاکہ جب ہم لوگ دنیا میں نہ رہیں گے تو بعد میں بھی یہاں طلبۂ سالکین آئیں گے اور اﷲ اﷲ کریں گے۔ خانقاہ تھانہ بھون کی اجمالی تاریخ تھانہ بھون کی خانقاہ کس نے بنوائی تھی اور کس طرح بنوائی تھی؟ آج خانقاہ تھانہ بھون کی تاریخ بھی سن لیجیے! اصل میں یہ خانقاہ حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پیر