Deobandi Books

نسبت مع اللہ کے آثار

ہم نوٹ :

18 - 42
جس طرح دنیاوی حمل میں نو مہینے کے بعد شدید درد اُٹھتا ہے جس کو دردِ زہ کہتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کو حاملِ درد کرتے ہیں، حاملِ نسبت کرتے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کی محبت میں بے چین رہتا ہے، وہ اپنے دردِ محبت کو چھپا نہیں سکتا، وہ ہر وقت اﷲ ہی کے گن گاتا ہے اور اس کو پتا چل جاتاہے کہ مجھ کو نسبت عطا ہوگئی۔ دریا میں پانی بہے تو کیا دریا کو پتا نہیں چلے گا؟ ایک دریا خاک اُڑا رہا ہے، اس میں پانی نہیں ہے، وہا ں سب علماء تقریر کررہے ہیں کہ اے دریا! پانی کے یہ یہ فوائد ہیں، تو دریا کہتا ہے کہ ہمیں تو خاک ہی اُڑانا نصیب ہے، تمہاری تقریروں سے ہمیں پانی تو نہیں مل رہا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے بارش کردی اور دریا پانی سے بھر گیا۔ پھر علماء پانی پر تقریر کرنے پہنچے۔ تو اس نے کہا کہ اب تقریر کی ضرورت نہیں، میرے اندر لبالب پانی بہہ رہا ہے۔ اس پر مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے      ؎
باز آمدآبِ من در جوئے من
باز آمد شاہِ  من در کوئے  من
میرا پانی میرے دریا میں پھر آگیا اور میرا شاہ میری گلی میں پھر آگیا یعنی مجھے اﷲ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوگیا۔ اس شعر میں قبض کے بعد بسط کو تعبیر کیا ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک مرتبہ خواجہ صاحب نے جونپور میں ایک سوال کیا کہ حضرت یہ جو صوفیا کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ہر وقت یاد رکھو اور صاحبِ نسبت کو ہر وقت اﷲ تعالیٰ کا دھیان رہتا ہے تو کیا وہ کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں ہوتے، ان کو ذہول نہیں ہوتا، جب ہر وقت ان کو اﷲ کا دھیان رہتا ہے تو پھر وہ دنیا کا کام کیسے کرتے     ہیں،پھر وہ تیل کپڑا کیسے بیچیں گے، مدرس پڑھائیں گے کیسے اور شادی بیاہ کیسے ہوگا؟    حضرت تھانوی نے فرمایا کہ خواجہ صاحب دیکھو! وہ دو عورتیں پانی بھر رہی ہیں اور پانی کا ایک گھڑا ان کے سر پر ہے اور ایک بغل میں ہے تو بغل میں جو گھڑا ہے اس کو تو انہوں نے دبایا ہوا ہے لیکن سر پر جو گھڑا ہے اس کو پکڑا ہوا نہیں ہے اور بایاں ہاتھ ہلاتی ہوئی، گفتگو کرتی ہوئی، ہنستی بولتی جارہی ہیں اور دونوں کے سر پر جو گھڑے ہیں وہ ایسے ہی قائم ہیں وہ سر سے گرتے نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ خواجہ صاحب نے کہا کہ حضرت آپ ہی بتا دیجیے۔ حضرت نے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 الہامِ فجور کے اسرار 6 1
4 حرام خواہشات کے انہدام سے نسبت مع اﷲ کی تعمیر ہوتی ہے 8 1
5 خواہشات کے ویرانے میں خزانۂ تقویٰ کی مثال 10 1
6 حرام خواہشات سے بچنے کا غم اُٹھانا ہی تقویٰ ہے 10 1
7 آیت وَ زِدْنٰھُمْ ھُدًی سے ایک مسئلۂ سلوک کا استنباط 12 1
8 تزکیۂ نفس پر فلاح کا وعدہ ہے 13 1
9 اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ اﷲ تعالیٰ سے محبت کا عہد ہے 14 1
10 صحبتِ اہل اﷲ روح کی کلیوں کے لیے نسیمِ سحری ہے 15 1
11 عطائے نسبت کی علامات مع تمثیلات 17 1
12 خانقاہ تھانہ بھون کی اجمالی تاریخ 19 1
14 خانقاہ کے معنیٰ 20 1
15 شیخ کی اپنے بعض مرید پر خاص شفقت 21 1
16 بڑے پیر صاحب کا ارشاد 22 1
17 مولانا رومی کی مولانا حسام الدین سے محبت 22 1
18 آفتابِ نسبت مع اﷲ کو حسد کی خاک نہیں چھپا سکتی 24 1
19 گناہ کے تقاضوں سے گھبرانا نہیں چاہیے 24 1
20 حفاظتِ نظر پر حسنِ خاتمہ کی بشارت 25 1
21 نسبت مع اﷲ کے حصول کا واحد راستہ اہل اﷲ کی محبت ہے 26 1
23 اہل اﷲ کو آزمانا نادانی ہے 27 1
24 حضرت عبد اﷲ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ اورذاذان کا واقعہ 29 1
25 ارواحِ عارفین کی مستی و سرشاری 30 1
26 عشقِ مجازی کی تباہ کاریاں اور ان سے نجات کا طریقہ 31 1
27 توبہ سے رِند بادہ نوش بھی ولی اﷲ ہوجاتا ہے 28 1
Flag Counter