عرفان محبت |
ہم نوٹ : |
|
رہوں گا؟ کہا کہ دس سال تک اُمید ہے جی جائیں گے۔ جگر صاحب نے کہا کہ دس سال اللہ کی ناراضگی میں جی کر گزاروں اس سے بہتر یہ ہے کہ ابھی توبہ کی حالت میں مرجاؤں۔ میں اللہ تعالیٰ کو اپنی جان دینے کے لیے فدا ہوں۔ اس کو کہتے ہیں توبہ۔ جب تک جان نہیں لڑاؤگے غیراللہ سے جان نہیں چھڑاسکتے،آسانی سے گناہ نہیں چھوڑسکتے۔ لومڑیوں کا یہ کام نہیں ہے، شیروں کا کام ہے۔جسم دیکھو تو شیر سے بھی قوی اور ہمت دیکھو تو لومڑی بھی شرماجائے۔ تو اللہ والوں کی محبت سے اللہ کی محبت بھی مل جائے گی اور نیک اعمال کی توفیق بھی ملے گی۔ مجھے اپنا ایک شعر یاد آگیا ؎ جی چاہتا ہے ایسی جگہ میں رہوں جہاں جیتا ہو کوئی درد بھرا دل لیے ہوئے میں خود کہتا ہوں کہ اگر کوئی درد بھرا دل لے کر کہیں بیٹھا ہو میں ایسی شخصیت پر اس عمر میں بھی فدا ہونے کے لیے تیار ہوں۔ مجھے ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ نے اللہ والوں کی محبت کی دولت عطا فرمائی ہے۔ محبت کی حدود اب آگے محبت کی پلاٹنگ ہورہی ہے۔ جیسے ہر چیز کی پلاٹنگ اور اس کی حدود ہوتی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ! اتنی محبت دے دے کہ میں اپنی جان سے زیادہ آپ کو پیار کروں: اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ جب جان سے زیادہ مولیٰ پیارا ہوگا تو بتاؤ پھر کوئی بدنظری کرے گا؟ گناہ چھپ چھپ کر کرے گا؟ لعنتی مزہ لے گا؟ ارے! گناہ سے ایسا بھاگے گا جیسے سانپ سے۔ اور اللہ کی رحمت پر فدا رہے گا۔ جان سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی محبت مطلوب ہے تو زبانِ رسالت سے محبت کی حدود بیان ہورہی ہیں کہ اے اللہ! ہمیں اتنی محبت