عرفان محبت |
ہم نوٹ : |
|
آجائے گا، یہی علامت ہے کہ معافی ہوگئی۔ حدیث اَللّٰہُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَآءِ الثَّلْجِ کی الہامی تشریح کیوں کہ گناہوں سے دل پر دو قسم کے عذاب آتے ہیں۔ ایک تو اندھیرا پیدا ہوتا ہے، دوسرے دل میں جلن اور سوزش پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے کہ گناہ کا تعلق دوزخ سے ہے لہٰذا دل میں گرمی، جلن اور سوزش اور اندھیرا پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں استغفار کا عجیب مضمون عطا فرمایا ہے۔ فرمایا: اَللّٰہُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَآءِ الثَّلْجِ 7 ؎اے اللہ! میرے گناہوں کو دھو دے برف کے پانی سے، وَالْبَرَدِ اور اولے کے پانی سے۔ میرے شیخ نے مجھے جب یہ حدیث پڑھائی تو ڈاکٹر عبدالحی صاحب عارفی رحمۃ اللہ علیہ جونپور سے اعظم گڑھ آئے ہوئے تھے اور مجلس میں موجود تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ برف اور اولے کے پانی سے گناہوں کے دھلوانے کی کیوں درخواست کی جارہی ہے؟ حضرت کو جواب معلوم نہیں تھا، آنکھ بند کرکے سر کو جھکایا، چند سیکنڈ کے بعد فرمایا کہ آ گیا آ گیا جواب آگیا۔ فرمایاکہ گناہ سے دو باتیں پیدا ہوتی ہیں، ایک حرارت اور گرمی، دوسری اندھیرے۔گناہوں سے اندھیرے کیوں آتے ہیں؟ ا س کا جواب اختر سے سن لو کہ چوں کہ سورج کے ڈوبنے سے عالم میں اندھیرا پیدا ہوجاتا ہے تو سورج کا پیدا کرنے والا جس سے منہ پھیرلے، اس کے دل میں اندھیرا نہیں آئے گا؟ میرے شیخ نے فرمایا کہ برف کا پانی ٹھنڈا ہوتا ہے، اس کے ذریعے گناہوں کے دھونے کی درخواست کی جارہی ہے تاکہ گناہوں کی گرمی ٹھنڈک سے تبدیل ہوجائے اور اولے کا پانی چمکدار ہوتا ہے، اس کے ذریعے سے اندھیرے اجالوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔ قبولیتِ توبہ کی علامت اور اس کی مثال تو استغفار اور توبہ اتنا کرو کہ دل میں بغیر حروف کے ایک آواز محسوس ہو کہ اب بس کرو مت روؤ، ورنہ بیما رہوجاؤگے، ہم نے معاف کردیا۔ اس کی حسّی مثال پیش کرتا ہوں، _____________________________________________ 7؎صحیح البخاری:943/2(6409)، باب الاستعاذۃ من ارذل العمر،المکتبۃ المظہریۃ