عرفان محبت |
ہم نوٹ : |
|
کے الفاظ کی لذت الگ، نبی کے اتباع کی لذت الگ اور اللہ سے مانگنے کی لذت الگ۔ اہل اللہ سے محبت ذوقِ نبوت ہے اور کیا مانگو گے اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ مجھے آپ اپنی محبت دے دیجیے، وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ اور جو لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں ان کی محبت دیجیے۔ آپ کے عاشقوں کی محبت بھی میں مانگتا ہوں۔ اب آپ بتائیے کہ جو ظالم یہ کہے کہ کتابوں سے میں اللہ والا بن جاؤں گا، مجھے اللہ والوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس کا یہ استغنا بخاری شریف کی اس حدیث کی روشنی میں حماقت ہے یا نہیں؟ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کی محبت مانگ رہے ہیں تو کون ظالم اس سے مستغنی ہوسکتا ہے؟ یہ دلیل ہے کہ یہ شخص کورا ہے، مرادِ نبوت اور ذوقِ نبوت سے ناآشنا ہے۔ وَحُبَّ عَمَلٍ یُّبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ اور اے اللہ! ایسے اعمال کی محبت دے دے جن سے تیری محبت ملے۔ عجیب رابطہ علامہ سیّد سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی محبت اور اعمال کی محبت کے درمیان اللہ والوں کی محبت کیوں مانگی گئی ہے؟ اس لیے کہ یہ اللہ کی محبت اور اعمال کی محبت کے درمیان رابطہ ہے یعنی اللہ والوں کی محبت میں یہ خاصیت ہے کہ اللہ والوں کے پاس بیٹھنے سے اللہ تعالیٰ کی محبت بھی مل جاتی ہے اور اعمال کی محبت بھی مل جاتی ہے۔ (سبحان اللہ) دیکھو! جگر صاحب کو ایک مرتبہ ایک اللہ والے بزرگ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت نصیب ہوئی، کیسے اللہ والے بن گئے؟ شراب سے توبہ کرلی، حج کر آئے، داڑھی بھی رکھ لی اور ان شاء اللہ خاتمہ بالخیر بھی نصیب ہوگیا۔ ساری زندگی شراب پی ؎ پینے کو تو بے حساب پی لی اب ہے روزِ حساب کا دھڑکا مگر ایک صحبت سے کیسی توبہ کرلی؟ بیمار ہوئے، ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ قومی امانت ہیں، تھوڑی پی لیا کیجیے، زندگی بچ جائے گی۔ پوچھا کہ اگر میں شراب پیتا رہوں گا تو کب تک جیتا