عرفان محبت |
ہم نوٹ : |
|
امر شہ بہتر بقیمت یا گہر یعنی اگرچہ حسین بے شک حسین ہیں۔ ان کی ناک کی اُٹھان ہے، چہرہ کتابی اور آنکھیں مثل ہرن ہیں اور ان کے لب نازک مثل گلاب کی پنکھڑی کے ہیں لیکن یہ موتی زیادہ قیمتی ہے یا خدائے تعالیٰ کا حکم زیادہ قیمتی ہے؟ ان کے پیٹ میں پائخانہ ہے یا نہیں؟ پیشاب ہے یا نہیں؟ لیکن اپنی بیویوں کو پیار کرنا چاہیے، کچھ بھی ہو۔ یہ صرف سڑکوں والی سے بچانے کے لیے کہہ رہا ہوں اور بیویوں کو زیادہ پیار کرنے کے لیے نسخہ بتارہا ہوں، وہ حلال ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو حلال کیا ہے۔ آگے فرماتے ہیں؎ گوہر حق را بامر حق شکن اللہ کے ان موتیوں کو، ان حسینو ں کو خدا ہی کے حکم سے مت دیکھو، کچھ دن کے بعد یہ حسن بگڑ جاتا ہے۔ سولہ سال کی گڑیا کو جس نے دیکھا تھا اب جب ستر سال کی بڑھیا دیکھوگے تو بھاگ جاؤگے، کہتا ہے یہ کیسی گڑیا ہے؟ کیسی تھی کیسی ہوگئی؟ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ ۔ شکل بگڑی تو بھاگ نکلے دوست جن کو پہلے غزل سنائے ہیں بگڑنے والی شکلوں پر جو بگڑتا ہے، تباہ اور برباد ہوتا ہے۔ جو حق تعالیٰ کے قانون کو توڑتا ہے ایسی لعنتی آنکھیں کیا اللہ والی ہوجائیں گی؟ اور بگڑنے والی شکلوں پر بگڑنے والے باگڑ بِلّا تو ہوسکتے ہیں، عارف باللہ نہیں ہوسکتے۔ اَشَدُّ حُبًّا لِلہِ کا جملۂ خبر یہ حق تعالیٰ کی شانِ محبوبیت کی دلیل تو اللہ تعالیٰ نے جملۂ خبریہ استعمال کیا، اس لیے کہ اپنی محبت کا حکم دینا اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کے خلاف ہے۔ میں ہوں ہی ایسا کہ اگر تم مجھے پہچان لو اور تمہاری آنکھوں کا موتیا نکل جائے تو خود ہی مجھ سے محبت کرنے لگوگے، مجھے حکم دینے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے جمال، اپنے کمال اور شانِ محبوبیت کا خود ہی علم ہے کہ اگر انہوں نے مجھے پہچان لیا اور دل میں پالیا تو خود ہی مجھ سے محبت کرنے پر مجبور ہوں گے؎